1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنانی بحران کے حل کے لئے قطر میں مذاکرات

Geelani, Gowhar16 مئی 2008

عرب لیگ کی مداخلت کے بعد لبنان کے موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لئے متحارب دھڑوں کے رہنما خلیجی ریاست قطر میں مذاکرات کررہے ہیں۔

ایک نقاب پوش عسکریت پسند لبنانی دارالحکومت بیروت میں پہرہ دیتے ہوئےتصویر: AP

ہیہ مذاکرات ایک ایسی فضاء میں ہورہے ہیں جب ابھی حال ہی میں حزب اللہ نے لبنانی دارالحکومت بیروت پر تقریباً مکمل کنٹرول حاصل کرکے‘ امریکہ کی حمایت یافتہ لبنانی مخلوط حکومت کو ایک زبردست دھچکہ دے دیا تھا۔چھہ روز تک جاری رہنے والی ان خون ریزجھڑپوں کے بعد حزب اللہ کے عسکریت پسند واپس اپنی پوزیشنوں پر چلے گئے تھے لیکن تب تک اکیاسی افراد جاں بحق ہوچکے تھے۔

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکی صدر جارج بُش شاہ عبداللہ کے ہمراہتصویر: AP

عرب لیگ کی مداخلت کے نتیجے میں اب فریقین مذاکرات پر آمادہ ہوگئے ہیں۔حکومت اور حزب اللہ‘ دونوں ہی لچک دار موقف اختیار کرنے پر بھی راضی ہیں۔

وفاقی جرمن حکومت نے لبنانی حکومت اور حز ب اللہ کی طرف سے قطر مذاکرات پر آمادگی کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔جرمنی نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ لبنان کے حریف سیاستدان ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرسکیں گے اور پھر اپنے صدر کا انتخاب بھی کرپائیں گے۔

مغرب کی حامی لبنانی حکومت اور حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کے مایبن جھڑپوں اور شدید اختلافات کے باعث گُذشتہ برس نومبر کے مہینے سے ابھی تک لبنان میں صدارتی عہدہ خالی پڑا ہوا ہے۔

جنوبی امریکہ کے دورے پر وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے لبنان کے بحران کے لئے قطر مذاکرات کی حمایت کی ہےتصویر: AP

جنوبی امریکہ کے دورے پر گئی ہوئیں جرمن چانلسر انگیلا میرکل نے خلیجی ریاست قطر میں مذاکرات کو خوش آئیند قرار دیا ہے۔ واشنگٹن حکومت ہمیشہ ہی شام اور ایران پر یہ الزام عائد کرتی ہے کہ یہ ممالک لبنانی حکومت کے خلاف مہم میں حزب اللہ کی بھرپور معاونت کرتے ہیں لیکن یہ دونوں ممالک امریکی الزام کو مسترد کرتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے دورے پر گئے ہوئے امریکی صدر جارج بُش نے یروشلم میں ایک مرتبہ پھر کہا کہ ان کا ملک حز ب اللہ اور حماس کے خلاف لبنان اور اسرائیل کی حکومتوں کی حمایت جاری رکھے گا۔

ایران اور شام پر امریکہ کا الزام ہے کہ وہ حزب اللہ کی معاونت کرتے ہیں لیکن محمود احمدی نژاد اور بُشارا لسد اس الزام کو مسترد کرتے ہیںتصویر: AP

یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ حز ب اللہ لبنان میں ایک مضبوط سیاسی قوت ہے اور اس کے علاوہ اسکے پاس زبردست عسکری طاقت بھی ہے۔

حزب اللہ کے ایک سرکردہ کمانڈر عماد مغنیہتصویر: AP

عرب لیگ کی مداخلت کے بعد لبنانی سیاستدان امن مذاکرات پر راضی تو ہوگئے ہیں لیکن قطر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے یا نہیں‘ یہ مذاکرات کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا!

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں