لبنانی نژاد تاجر کا اسرائیلی تنظیم کے لیے تحفہ: ہٹلر کا ہیٹ
25 نومبر 2019
لبنانی نژاد سوئس تاجر نے اسرائیل کی ایک تنظیم کو حیران کن تحفہ دیا ہے۔ یہ تحفہ وہ ہیٹ ہے، جو نازی نیشنل سوشلسٹ حکومت کے سربراہ ایڈولف ہٹلر پہنا کرتے تھے۔
اشتہار
اسرائیلی فاؤنڈیشن کو ہٹلر کے ہیٹ کا تحفہ لبنان میں پیدا ہونے والے سوئٹزرلینڈ کے شہری عبداللہ شیتلا نے دیا ہے۔ شیتلا نے یہ ہیٹ رواں برس بیس نومبر کو جرمن شہر میونخ کے ایک نیلام گھر سے خریدا تھا۔ انہوں نے ہٹلر کا ہیٹ خریدنے کے لیے پچاس ہزار یورو ادا کیے۔ اس نیلامی کو وقت سے پہلے ہی مختلف حلقوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا تھا۔
عبداللہ شیتلا نے ہیٹ خرید کر ایک اسرائیلی فاؤنڈیشن کو تحفہ کر دیا ہے۔ اسے تحفہ کرتے ہوئے شیتلا نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ ہیٹ کسی بھی طرح نیو نازی گروپ یا اس کے سرگرم اراکین کے پاس جائے۔ شیتلا کے مطابق یہ ہیٹ تاریخ کے ایک دردناک دور سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا غلط ہاتھوں میں جانا قابل افسوس ہوتا۔
عبداللہ شیتلا نے ڈوئچے ویلے کو ایک ای میل کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ وہ میونخ کے ہرمان ہسٹریکا نیلام گھر سے نیشنل سوشلسٹ دور کی کچھ اور اشیاء بھی خریدنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ لبنانی نژاد تاجر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہیروں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ حالیہ دور میں یورپی براعظم میں قوم پرستی اور سامیت مخالفت کو بتدریج فروغ حاصل ہوتا جا رہا ہے، جو افسوس ناک ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہیٹ کو خرید کر اسرائیلی فاؤنڈیشن کو تحفہ دینا حقیقت میں قوم پرستی اور سامیت مخالفت کی نفی کی مثال ہے۔
شیتلا کے اس اقدام کو یورپی یہودی ایسوسی ایشن سے منسلک رابی میناشیم مارگولین نے بہت ہی مناسب الفاظ کے ساتھ سراہا ہے۔ مارگولین نے کہا کہ اس نفسا نفسی کے دور میں شیتلا کا ہیٹ خرید کر تحفہ کرنا ایک انتہائی قابل تعریف عمل ہے۔ انہوں نے اس کو فیاضی، فراخدلی اور یک جہتی کے جذبات کا مظہر قرار دیا۔ یہ امر اہم ہے کہ مارگولین نے نازی دور کی اشیاء کی نیلامی کو اخلاقی دیوالیہ پن قرار دیا تھا۔
عبداللہ شیتلا کا خاندان سن 1988 میں لبنان سے نقل مکانی کر کے سوئٹزرلینڈ میں آباد ہو گیا تھا۔ زیورات اور جواہرت کا کاروبار اُن کا خاندانی ہے۔ اس میں شامل ہو کر انہوں نے ہیروں کی سوداگری کو اپنے لیے منتخب کیا۔ ان کی ویب سائٹ کا نام 'سوئس عرب اینٹریپنیورز‘ ہے۔
ویزلی رہین (ع ح ⁄ ع ا)
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔