لبنان اور اسرائيل، ايک پيچيدہ رشتہ اور مجبوری ميں سمجھوتہ
13 اکتوبر 2020
لبنان اور اسرائيل حالت جنگ ميں ہيں مگر بحيرہ روم کے گيس سے مالا مال سمندری علاقے پر ديرينہ تنازعے کے حل کے ليے بدھ 14 اکتوبر سے مذاکرات شروع کر رہے ہيں۔ لبنانی اقصاديات کے ليے اس وقت يہ کافی اہميت کا حامل ہو سکتا ہے۔
اشتہار
لبنانی اور اسرائيلی حکام بحری تنازعے کے حل کے ليے بدھ 14 اکتوبر کو بات چيت کر رہے ہيں۔ يہ مذاکرات جنوبی لبنان ميں تعينات اقوام متحدہ کے امن دستوں کی ميزبانی ميں ہو رہے ہيں۔ مذاکرات اقوام متحدہ کی فورس UNIFIL کے اڈے پر ہو رہے ہيں۔ 22 سال تک قابض رہنے کے بعد اسرائيلی افواج سن 2000 ميں جنوبی لبنان کے اس علاقے سے پيچھے ہٹ گئی تھيں۔ تب سے اقوام متحدہ کے امن دستے اس علاقے ميں تعينات ہيں۔
يہ مذاکرات امريکا کی تين سال سے جاری سفارت کاری کا نتيجہ ہيں۔ لبنان اور اسرائيلی حکام کے مابين مذاکرات ايک ايسے وقت پر ہو رہے ہيں جب قريب ايک ماہ قبل ہی متحدہ عرب امارات اور بحرين نے اسرائيل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کيے ہيں۔ سياسی مبصرين مشرق وسطیٰ ميں حاليہ پيش رفت کو امريکا کی خطے ميں اپنے قريب ترين اتحاديوں کو اکھٹا کر کے روايتی حريف ايران کے خلاف ايک محاذ کھڑا کرنے کی کوشش قرار ديتے ہيں۔
اسرائيل کی سخت مخالف لبنانی شيعہ عسکری تنظيم حزب اللہ کی جانب سے کہا گيا ہے کہ اسرائيل کے ساتھ يہ مذاکرات قيام امن کے ليے نہيں ہيں۔ حزب اللہ نے اسرائيل کے خلاف سن 2006 ميں پانچ ہفتوں پر محيط جنگ بھی لڑی تھی۔ دوسری جانب اسرائيلی وزير توانائی يووال اسٹائنٹز نے کہا ہے کہ بات چيت سے حقيقت پسندانہ اميديں ہی رکھنی چاہييں نا کہ کسی بڑی پيش رفت کی توقع کی جائے۔ اسٹائنٹز نے اپنی ايک ٹوئيٹ ميں لکھا، ''ہم قيام امن اور تعلقات کے قيام پر بات چيت نہيں کر رہے۔ يہ مذاکرات ايک تکنيکی و معاشی مسئلے کے حل کے ليے ہيں، جو آف شور قدرتی وسائل کے شعبے ميں ترقی کی راہ ميں دس سال سے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔‘‘
دوسری جانب امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو نے اسے ايک تاريخی پيش رفت قرار ديا ہے۔ پومپيو نے عنديہ ديا کہ بدھ کو ہونے والے مذاکرات کے بعد ممکنہ طور پر واشنگٹن حکومت سرحدی تنازعے پر بھی بات چيت کی ميزبانی کر سکتی ہے۔
لبنان کے ليے يہ سمجھوتہ کيوں اہم؟
سمندری حدود پر اختلافات کی وجہ سے اس علاقے ميں تيل اور گيس کی تلاش کا کام ايک عرصے سے معطل ہے۔ يہ شايد اسرائيل کے ليے اتنا بڑا مسئلہ نہ ہو جو کہ سمندر سے وسيع پيمانے پر تيل اور گيس کے ذخائر پہلے ہی حاصل کر رہا ہے مگر لبنان کے ليے يہ اس وقت بہت اہميت کا حامل ہے۔
اشتہار
لبنان کو اس وقت سن 1975 اور سن 1990 کے درميان جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد کے بد ترين اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ لبنانی کرنسی کی قدر بھی بہت زيادہ گر چکی ہے۔ علاوہ ازيں کورونا کی وبا اور ايک حاليہ بم دھماکے نے بھی ملکی معيشت کی کمر توڑ دی ہے۔ ساتھ ہی سياسی سطح پر بھی عدم استحکام جاری ہے۔
کارنگی مڈل ايسٹ سينٹر سے وابستہ فيلو مھند الحاج علی کے مطابق حزب اللہ اور اس کی سياسی اتحادی جماعت امال پارٹی کے ليے بات چيت پر رضامندی وقت کی مصلحت ہے۔ يہ کشيدگی ميں کمی اور امريکی پابنديوں سے بچنے کے ليے ايک سمجھوتہ ہے۔
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔