1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان اور اسرائیل کے مابین تاریخی گیس پائپ لائن معاہدہ

11 اکتوبر 2022

امریکی ثالثی میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان سمندری سرحد کے حوالے سے ایک تاریخی معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے بعد بحیرہ روم سے گیس کی پیداوار میں اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔

Libanon I Marine Israel
تصویر: Mohammed Zaatari/AP/picture alliance

اسرائیلی وزیراعظم یائر لاپید نے منگل کے روز اسرائیل اور لبنان کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک نے سمندری حدود کے تعین کی ڈیل طے کر لی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے جو اسرائیلی سلامتی کو مضبوط بنائے گی اور اسرائیلی معیشت میں اربوں ڈالر کے اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی شمالی سرحد کے استحکام کو یقینی بنائے گی۔‘‘

سن 2020 سے امریکا اس ڈیل کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کر رہا ہے۔ لبنان کے چیف مذاکرات کار اور پارلیمانی اسپیکر الیاس بو ساب نے کہا کہ اس معاہدے کا حتمی مسودہ لبنان کی تمام تر ضروریات کا احاطہ کرتا ہے جب کہ اسے یقین ہے کہ دوسرے فریق کے احساسات بھی یہی ہوں گے۔‘‘

اب اس ڈیل پر دونوں ممالک کے رہنماؤں نے دستخط کرنا ہیں۔

یہ ڈیل کیا ہے؟

اس ڈیل کا مرکزی نکتہ بحیرہ روم کے ایک متنازعہ علاقے میں واقع کارش گیس فیلڈ سے متعلق تھا۔ لبنان اس گیس فیلڈ پر جزوی ملکیت جتاتا ہے، تاہم اسرائیل کا اصرار رہا ہے کہ یہ فیلڈ مکمل طور پر اس کے پانیوں میں آتی ہے، جس پر مذاکرات کی گنجائش نہیں۔ اس سلسلے میں امریکا کے تیار کردہ مسودے کے میڈیا پر لیک ہو جانے والے حصے کے مطابق کارش گیس فیلڈ مکمل طور پر اسرائیل کی ملکیت قرار دی گئی تھی، تاہم ایک اور امکانی گیس فیلڈ 'قانا‘ جو اسرائیلی پانیوں میں آتی ہے وہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان تقسیم کر دی جائے گی، تاہم یہاں سے گیس کی پیداوار لبنانی انتظام میں ہو گی۔

اتوار کے روز لندن میں قائم انرجین نامی ادارے نےکاریش گیس فیلڈ کو اسرائیلی ساحل سے جوڑنے والی پائپ لائن کی آزمائش کا کام شروع کیا ہے۔ دریں اثناء فرانسیسی توانائی کمپنی ٹوٹل نے قانا فیلڈ سے گیس کی تلاش کے کام کے آغاز کیا ہے۔ یہاں سے نکلنے والی گیس کی آمدن میں اسرائیل کا بھی حصہ ہو گا۔

حزب اللہ کا موقف کیا ہے؟

لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ ماضی میں دھمکی دیتی رہی ہے کہ اگر کارش گیس فیلڈ سے اسرائیل گیس نکالنے کا کام شروع کرتا ہے، تو وہ اس پر حملہ کر سکتی ہے تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق منگل کے روز لبنانی سرکاری ذرائع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں ڈیل کے حوالے سے حزب اللہ نے بھی رضامندی ظاہر کی ہے۔

دوسری جانب سابق اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ان مذاکرات کو ''اسرائیل کا حزب اللہ کے سامنے جھکنا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات کے بعد حکومت میں آئیں گے، تو لبنان کے ساتھ اس معاہدے پر عمل کے پابند نہیں ہوں گے۔

ع ت، ش ر (روئٹرز، اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں