لبنان میں پیر کے روز وہ تاریخی قانون منظور کر لیا گیا ہے، جس کے تحت خانہ جنگی کے دور میں لاپتا ہو جانے والوں سے متعلق تفتیش کی جائے گی اور ان گم شدگیوں کے درپردہ افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اشتہار
انسانی حقوق کی تنظمیوں کے مطابق لبنان میں سن 1975 تا 1990 تک جاری رہنے والے مسلح تنازعے میں ہزاروں افراد گم شدہ ہو گئے تھے، تاہم ان افراد کے اہل خانہ کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے جواب کے لیے قانون سازی نہیں ہو پا رہی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل یہ مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے، تاکہ متاثرہ خاندانوں کی دلی جوئی ہو سکے۔
لبنان کے سرکاری میڈیا کے مطابق، ’’پارلیمان نے پیر کی شام جبری گم شدگیوں سے متعلق قانون کی منظوری دے دی ہے۔‘‘
اس قانون کے تحت ایک باقاعدہ کمیشن گم شدہ یا جبری طور پر لاپتا ہو جانے والے افراد سے متعلق تفصیلی جانچ کرے گا۔
اس قانون میں لاپتا افراد کے اہل خانہ کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گم شدہ رشتہ دار سے متعلق تفصیلات جان سکتے ہیں اور ان کی شناخت اور جائے تدفین تک کی معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
اس قانون کے تحت جبری گم شدگیوں میں ملوث افراد کو پندرہ برس قید اور بیس ملین لبنانی پاؤنڈ (تیرہ ہزار ڈالر) جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ لبنانی خانہ جنگی میں شامل متعدد جنگی سردار ملکی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
تصویر: dapd
8 تصاویر1 | 8
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کو انصاف مل سکے گا۔
بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کی جانب سے اس موضوع پر ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا گیا ہے، ’’یہ ان ہزاروں خاندانوں کے لیے ایک مثبت قدم ہے جو اپنے گم شدہ پیاروں کی بابت تفصیلات چاہتے ہیں۔‘‘
اس پیغام میں مزید کہا گیا، ’’ہم اس قانون پر عمل درآمد کے لیے حکومت کی معاونت کے لیے تیار ہیں تاکہ متاثرہ خاندانوں کو ان سوالات کے جوابات مل سکیں جن کا وہ ایک طویل عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘