ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ نے جمعرات کو جنوبی لبنان سے اسرائیل پر اپنے حملوں میں شدت پیدا کر دی، جہاں اسرائیلی بمباری سے اس کے سات جنگجو، جن میں ایک ایلیٹ یونٹ کے ارکان بھی شامل تھے، ہلاک ہو گئے ۔
اشتہار
سات اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحد پر فائرنگ کے تبادلے میں اضافہ ہوا ہے، جس میں بنیادی طور پر اسرائیل اور ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ تحریک فلسطینی گروپوں کے ساتھ شامل ہیں۔ ان جھڑپوں نے وسیع تر تصادم کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔
حزب اللہ نے کہا ہے کہ اس نے اسرائیلی فوجی ٹھکانوں پر 20 سے زیادہ حملے کیے ہیں جن میں جانی نقصان کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ حزب اللہ نے یہ بھی کہا کہ اس نے سرحد سے تقریباً 10 کلومیٹر (چھ میل) کے فاصلے پر، شمالی اسرائیل کے شہر صفد کے قریب، اسرائیلی فوجی اڈے Ein Zeitim پر 48 کاٹوشا راکٹ فائر کیے۔
گزشتہ ماہ شروع ہونے والے تشدد کے بعد سے یہ حملہ حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل پر بظاہر اب تک کا سب سے بڑا راکٹ حملہ تھا۔ حزب اللہ نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایک اسرائیلی سرحدی پوزیشن پر برقان نامی دو بھاری راکٹ بھی فائر کیے۔
کیا اسرائیلی فوج غزہ پٹی میں زمینی کارروائی کرے گی؟
02:21
ادھراسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اسرائیل پر فائرنگ کے جواب میں اس کے ہیلی کاپٹروں اور لڑاکا طیاروں نے حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے ''دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے‘‘ کے ساتھ ساتھ راکٹ لانچ کرنے کے مقامات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
کل جمعرات کو فائرنگ کا یہ تبادلہ اس وقت ہوا جب ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ سے ملاقات کی۔ ایرانی نیوز ایجنسی نور کے مطابق امیر عبداللہ، جنہوں نے بدھ کے روز خبردار کیا تھا کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ پھیل بھی سکتی ہے، بعد ازاں بیروت سے دوحہ کے لیے روانہ ہو گئے۔
ایران نے، جو حماس اور حزب اللہ کی حمایت کرتا ہے، سات اکتوبر کے حماس کے حملوں پر خوشی کا اظہار کیا تھا لیکن ان میں اپنے براہ راست ملوث ہونے سے انکار بھی کیا تھا۔ اے ایف پی کے اعداد وشمار کے مطابق اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین تشدد سے لبنان میں کم از کم 109 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر حزب اللہ کے جنگجو تھے۔ ان مرنے والوں میں سے کم از کم 14 عام شہریوں میں سے تین صحافی تھے۔
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔