لبنان: شام کے پناہ گزینوں کی تعداد ایک ملین سے تجاوز کر گئی
4 اپریل 2014انٹونیو گُٹیرس نے کہا کہ لبنان کو پہلے ہی اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور اس کے لیے اس تعداد کا اثر کہیں زیادہ ہے۔ شام کے پناہ گزینوں میں نصف بچے ہیں۔ لبنان میں موجود یہ لوگ وہاں کی مقامی آبادی کا ایک چوتھائی ہیں۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق گُٹیرس کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سے انتہائی مخدوش حالات میں گزر بسر پر مجبور ہیں اور امداد ہی ان کی زندگی کا سہارا ہے۔
مہاجرین کی اس قدر بڑی تعداد کی وجہ سے لبنان میں فراہمی و نکاسئ آب اور صحت کی سہولتوں کے نظام پر بھی اثر پڑا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کا مزید کہنا ہے: ’’لبنان کے عوام نے انتہائی کھلے دِل کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن انہیں اتنے لوگوں کو سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لبنان نے حالیہ تاریخ میں اپنی آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ پناہ گزینوں کو اپنے ہاں جگہ دی ہے۔‘‘
انٹونیو گُٹیرس نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ لبنان کے لیے مدد میں اضافہ کرے۔ انہوں نے کہا: ’’اسکول جانے کی عمر کے بچوں کی تعداد اس وقت چار لاکھ ہے جو سرکاری اسکولوں میں لبنانی بچوں پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ ان اسکولوں نے ایک لاکھ پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھولے ہیں، لیکن مزید بچوں کو داخلے دینے کی استعداد انتہائی محدود ہے۔‘‘
لبنان کے وزیر برائے سماجی امور راشد درباس کا کہنا ہے: ’’لبنان میں دس لاکھ پناہ گزینوں کی رجسٹریشن مکمل ہونے پر ہم عرب اور عالمی برادری کے سامنے مدد کی ایک ملین اپیلیں رکھ رہے ہیں۔‘‘
درباس نے جمعرات کو لبنان کے ایک شمالی علاقے میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ آئندہ برس شام کے پناہ گزینوں کی تعداد لبنان کی آبادی کے برابر پہنچ سکتی ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق شام میں خانہ جنگی سے پہلے کی 22.4 ملین کی آبادی کا چالیس فیصد سے زائد بے گھر ہو چکا ہے۔ اس کے ڈھائی ملین سے زائد پناہ گزین ہمسایہ ملکوں کو چلے گئے ہیں جبکہ ساڑھے چھ ملین اندرون ملک ہی محفوظ ٹھکانوں کی تلاش پر مجبور ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق شام کے چھ لاکھ ستّر ہزار شہری ترکی میں پناہ گزینوں کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔