لبنان میں داعش کے مشتبہ شدت پسند کے ہاتھوں چار فوجی ہلاک
15 ستمبر 2020
لبنان میں فورسز نے ایک مبینہ شدت پسند کی گرفتاری کے لیے گھر پر چھاپے کی کارروائی کی تھی جس کے دوران مشتبہ شخص کے حملے میں چار لبنانی فوجی ہلاک ہوگئے۔ سکیورٹی فورسز اب بھی اس گروہ سے وابستہ دیگر افراد کی تلاش میں ہیں۔
اشتہار
لبنان میں سکیورٹی فورسز نے ساحلی شہر طرابلس کے پاس ایک مبینہ شدت پسند کی گرفتاری کے لیے پیر کی صبح چھاپہ مارا تھا جس کے دوران مشتبہ شخص نے فورسز پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور گرینیڈ پھینکے جس کی وجہ سے چار لبنانی فوجی ہلاک ہوگئے۔ مشتبہ شخص کا تعلق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے بتایا جاتا ہے اور حکام اس شخص کو حراست میں لینا چاہتے تھے۔ لیکن بعد میں فوج نے اس شخص کو بھی فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔
لبنان کی سرکاری میڈیا کے مطابق سکیورٹی فورسز نے خالد الطلّاوی کو حراست میں لینے کی کوشش کی تھی۔ طلاوی پر دو مقامی پولیس افسران اورگزشتہ ماہ کفتون شہر کے میئر کے بیٹے کی ہلاکت کا الزام تھا۔ ان پر مقامی سطح پر شدت پسندوں کی ایک تنظیم کی قیادت کرنے کا بھی الزام ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک سینیئر فوجی افسر کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یہ واقعہ شمالی لبنان کے ساحلی شہر طرابلس کے پاس واقع بیداوی علاقے کا ہے۔ حکام کے مطابق جب سکیورٹی فورسز نے طلّاوی کو حراست میں لینے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تو انہوں نے اچانک فائرنگ شروع کر دی اور سکیورٹی فورسز پر گرینیڈ پھینکے اور یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ چار فوجی اس کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے۔
لبنان کی ایک نوجوان لڑکی ’آٹو مکینک‘
01:33
فوج کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے طلّاوی اور ان کے دیگر ساتھیوں کا جب تعاقب کیا تو طلّاوی تو فوج کی فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے تاہم دیگر ساتھیوں کی تلاش کا کام اب بھی جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ قتل و غارت گری کے سلسلے میں اس گینگ کے کئی افراد کی تلاش گزشتہ ایک ماہ سے جاری تھی۔ پولیس کا کہنا ہے بیداوی میں فلسطینی پناہ گزینوں کا جو کیمپ ہے وہاں سے ایک شخص کو گزشتہ ماہ گرفتار کیا گیا تھا۔
لبنانی دارالحکومت بیروت میں گزشتہ ماہ کے اوائل میں ہونے والے دھماکے میں تقریباً پونے دو سو افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ہونے والے مظاہروں کے سبب حسن دیاب کی حکومت مستعفی ہوگئی تھی اور پھر جرمنی میں لبنان کے سفیر مصطفی ادیب نے نئی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ ان کے دور اقتدار میں شدت پسندی کا یہ پہلا بڑا واقعہ ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔