1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

لبنان میں پیجر دھماکے: متعدد ہلاک، ہزاروں افراد زخمی

18 ستمبر 2024

لبنان میں پیجر دھماکوں کے لیے حزب اللہ، ایران اور لبنان نے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ منگل کی شام ان دھماکوں میں کم از کم نو افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے، جن میں بیروت میں تعینات ایرانی سفیر بھی شامل ہیں۔

ان دھماکوں میں کم از کم نو افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں
ان دھماکوں میں کم از کم نو افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیںتصویر: ANWAR AMRO/AFP

لبنان کے وزیر اعظم نجيب ميقاتی نے ان دھماکوں کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ''لبنان کی سلامتی کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘‘

ایران نے ان پیجر دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی ''دہشت گردانہ کارروائی‘‘ قرار دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے لبنانی وزیر خارجہ کو ٹیلی فون کیا اور اس ''دہشت گردانہ‘‘ حملے کی شدید مذمت کی۔

اسرائیل کے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے

اسرائیل حماس تنازعہ اور عرب دنیا، کون کس کے ساتھ ہے؟

لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ نے کہا ہے، ''ہم اسرائیل کو اس جارحیت کا مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس نے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا۔‘‘ حزب اللہ نے مزید کہا کہ اسرائیل کو اس کا جواب دیا جائے گا۔

دوسری طرف امریکہ نے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے جبکہ تاحال اسرائیل نے اس سلسلے میں اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک کا کہنا ہے کہ ''انتہائی نازک‘‘ تناظر میں لبنان کی صورت حال بے حد تشویشناک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ شہری اموات کی مذمت کرتا ہے۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق پیجرز تائیوانی مینوفیکچرر گولڈ اپولو سے منگوائے گئے تھےتصویر: Balkis Press/ABACA/IMAGO

دھماکے کیسے ہوئے؟

لبنانی سکیورٹی ذرائع نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ فوری رابطے کے لیے استعمال ہونے والے پیجرز پھٹنے سے لبنان کے مسلح گروپ حزب اللہ کے سینکڑوں ارکان، جن میں جنگجو اور طبی عملے کے ارکان دونوں شامل تھے، شدید زخمی ہو گئے۔

اسرائیل اور لبنان کے درمیان مسلح تنازعات کی تاریخ

اے ایف پی کے مطابق لبنان کے وزیر صحت الابيض نے کہا، ''2800 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے دو سو کی حالت خطرے میں ہے۔‘‘

ان واقعات میں حزب اللہ کے ایک رکن اسمبلی کے بیٹے بھی جان سے گئے جبکہ ایران کے لبنان میں تعینات سفیر مجتبیٰ امانی بھی ایک پیجر پھٹنے سے زخمی ہو گئے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے فوٹوگرافروں کے مطابق، زخمیوں سے بھرے ہسپتالوں میں، اسٹریچر پر لے جائےجانے والے زخمیوں میں سے کچھ کے ہاتھ غائب تھے، چہرے جزوی طور پر اُڑ گئے تھے یا ان کے کولہوں اور ٹانگوں میں سوراخ ہو گئے تھے۔ وسطی بیروت کی ایک مرکزی سڑک پر ایک کار کا دروازہ خون سے لت پت تھا اور ونڈشیلڈ میں شگاف پڑ گیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہےکہ حزب اللہ کے زیر استعمال پیجرز دھماکے ایک ایسی طویل منصوبہ بند کارروائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو ممکنہ طور پر سپلائی چین میں گھس کر اور آلات کی لبنان میں ترسیل سے پہلے دھماکہ خیز مواد کے ساتھ جعلسازی کے ذریعے انجام دی گئی تھی۔

روئٹرز کو تین سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ لبنان میں پھٹنے والے پیجر جدید ماڈل کے تھے جو حزب اللہ نے حالیہ مہینوں میں لیے تھے۔

حزب اللہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیجر ڈیوائسز پھٹنے سے ہونے والے دھماکے اسرائیل کی طرف سے تقریباً ایک سال سے جاری حملوں کے دوران ''سب سے بڑی سکیورٹی خلاف ورزی‘‘ ہیں، جن کا حزب اللہ کو نشانہ بنایا گیا۔

لبنان کے وزیر صحت الابيض نے کہا، 2800 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے دو سو کی حالت خطرے میں ہےتصویر: Fadel Itani/AFP/Getty Images

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ہیکنگ یا سائبر حملوں سے بچنے کے لیے حزب اللہ ملیشیا روایتی اسمارٹ فون ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرتی۔ رواں سال فروری میں اس کے رہنما حسن نصراللہ نے اپنے جنگجوؤں کو کہا تھا کہ وہ اسمارٹ فونز کا استعمال ترک کر دیں کیونکہ اسرائیل انہیں نشانہ بنانے یا سرویلنس کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

شان مور ہاؤس نے جو برطانوی فوج کے ایک سابق افسر اور دھماکہ خیز مواد کے ماہر ہیں ،کہا ہے کہ دھماکوں کی ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ ایک چھوٹا دھماکہ خیز چارج، جو پنسل اریزر کے سائز کا تھا، ان پیجرز میں رکھا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیلیوری سے پہلے ان میں یہ گڑ بڑ کی گئی تھی، اور بہت امکان ہے کہ اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد نے ایسا کیا ہو۔

برسلز میں قائم ''پولیٹیکل رسک‘‘ کے سینئر تجزیہ کار ایلیا جے میگنیئر نے کہا کہ انہوں نے حزب اللہ کے ان ارکان سے بات کی، جنہوں نے ایسے پیجرز کی جانچ پڑتال کی ہے جو پھٹے نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ دھماکوں کو جس چیز نے متحرک کیا، وہ بظاہر تمام ڈیوائسز کو بھیجا گیا ایک ''ایرر میسج‘‘ تھا، جس کی وجہ سے پیجرز نے 'وائبریٹ‘ کیا اور انہیں استعمال کرنے والے صارف اسے روکنے کے لیے بٹن کلک کرنے پر مجبور ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ یوں ان پیجرز کے اندر چھپایا گیا کم مقدار دھماکہ خیز مواد پھٹ گیا اور اس عمل نے اسے بھی یقینی بنایا کہ دھماکے کے وقت صارف وہاں موجود ہوں۔

اسرائیل ماضی میں حماس کے عسکریت پسندوں کو ''بوبی ٹریپ سیل فونز‘‘ کے ذریعے ہلاک کر چکا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 2010 میں ایران کے جوہری پروگرام پر کمپیوٹر وائرس کے بڑے پیمانے پر حملے کے پیچھے بھی اس کا ہاتھ تھا۔

گولڈ اپولو کمپنی نے کہا کہ جن پیجرز میں دھماکے ہوئے ہیں، وہ ایک یورپی کمپنی نے تیار کیے تھےتصویر: Ann Wang/REUTERS

پیجر کیا ہے؟

پیجر ایک چھوٹا اور سادہ الیکٹرانک آلہ ہوتا ہے جو پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک مخصوص فریکوئنسی پر کام کرتا ہے اور یک طرفہ رابطے کی سہولت فراہم کرتا ہے، یعنی پیجر کے ذریعے آپ کو پیغام موصول ہو سکتا ہے، لیکن آپ جواب نہیں دے سکتے۔

اس کا استعمال زیادہ تر ہنگامی حالات، طبی عملے، یا سکیورٹی اداروں میں فوری اور ضروری پیغامات پہنچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ پیجر کی سب سے بڑی خوبی اس کی سادگی اور فوری اطلاعات دینے کی صلاحیت ہے، جو اسے ایسے ماحول میں مفید بناتی ہے، جہاں تیز رفتار اور قابل اعتماد پیغام رسانی ضروری ہو۔ اس کا استعمال خاص طور پر ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں موبائل سگنل کمزور ہوں یا موبائل فونز غیر عملی ہوں۔

حزب اللہ کے ایک قریبی ذریعے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ''پھٹنے والے پیجرز حزب اللہ کی طرف سے حال ہی میں درآمد کی گئی 1,000 آلات کی ایک کھیپ میں شامل تھے، جن میں بظاہر ابتدا میں ہی گڑ بڑ پیدا کر دی گئی تھی۔‘‘

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق پیجرز تائیوانی مینوفیکچرر گولڈ اپولو سے منگوائے گئے تھے۔ تاہم اس کمپنی نے ان مصنوعات سے اپنے کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کی ہے۔

گولڈ اپولو کے بانی سو چنگ کوانگ نے کہا کہ جن پیجرز میں دھماکے ہوئے ہیں، وہ ایک یورپی کمپنی نے تیار کیے تھے اور تائی پے کی کمپنی کو اپنا برانڈ نام استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے بدھ کے روز نامہ نگاروں کو بتایا، ''یہ ہماری پروڈکٹ نہیں تھی۔ اس پر صرف ہمارا برانڈ نام درج تھا۔‘‘ انہوں نے مبینہ پیجر بنانے والی یورپی کمپنی کا نام نہیں بتایا۔

ج ا ⁄ م م ، ش ر (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں