1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان میں ہولناک تشدد کے لیے ذمہ دار کون؟

15 اکتوبر 2021

لبنان کے دارالحکومت بیروت میں مظاہروں کے دوران فائرنگ میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 32 زخمی ہو گئے۔ حزب اللہ نے اس کا الزام دائیں بازو کے مسیحی گروپ لبنانی فورسز پر عائد کیا ہے جبکہ گروپ نے اس کی تردید کی ہے۔

Libanon Beirut | Unruhen und Proteste
تصویر: Hussein Malla/AP Photo/picture alliance

لبنان کے دارالحکومت بیروت میں 14 اکتوبر جمعرات کے روز ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپوں اور فائرنگ کے واقعات کے لیے شیعہ گروپ حزب اللہ اور دائیں بازو کی سخت گیر مسیحی جماعت 'لبنانیز فورسز' (ایل ایف) ایک دوسرے کو مورد  الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

جمعرات کو مظاہروں کے دوران ہونے والی فائرنگ کے متعدد واقعات میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور تقریبا 30 دیگر زخمی ہو گئے۔ حزب اللہ نے مظاہروں کا اہتمام اس جج کے خلاف کیا تھا، جو گزشتہ برس بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے بہت بڑے اور شدید تباہ کن دھماکے کی تفتیش کر رہے ہیں۔

گزشتہ برس اگست میں بیروت کی بندر گاہ پر ہونے دھماکے میں تقریبا ًسوا دو سو افراد ہلاک اور ہزاروں دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ اس دھماکے کی تفتیش جاری ہے اور ابھی تک کسی کو بھی حتمی طور پر اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔تاہم حزب اللہ اور عمل گروپ نے انکوائری کمیٹی کے سربراہ جج طارق بطر پر جانب داری کا الزام عائد کیا ہے۔ عدالت نے جج کی برخاستگی سے متعلق ایک درخواست مسترد کر دی تھی اور اسی کے خلاف جمعرات کو احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا گیا تھا۔

تشدد کے ذمہ دار کون ہیں؟

حزب اللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ دائیں بازو کی مسیحی گروپ ایل ایف کے اسنائپرز نے لبنان کو تنازعات اور تشدد میں گھسیٹنے کے لیے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ حزب اللہ کی اپیل پر اس کے بہت سے حامی مظاہروں کے لیے نکلے تھے اور جب یہ لوگ مسیحی آبادی والے علاقے عین الرّمانیح سے گزر رہے تھے تبھی ان پر فائرنگ شروع ہوگئی۔

جب لوگ افراتفری میں ادھر ادھر پناہ لینے کی کوشش میں کررہے تھے کہ دو دھماکے بھی ہوئے۔ لبنان کی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جب، ''مظاہرین جسٹس پیلیس کی جانب جا رہے تھے تبھی تایونہ کے مقام پر ان پر فائرنگ شروع کی گئی۔'' 

تصویر: Hussein Malla/AP Photo/picture alliance

لیکن دائیں بازو کی مسیحی گروپ کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے جج کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کی اسی لیے اس تشدد کے لیے اشتعال دلانے کی ذمہ داری حزب اللہ پر عائد ہوتی ہے۔

ملک کے وزیر داخلہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسنائپرز نے چھتوں پر کھڑے ہو کر حملے کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض مقامات پر حملہ آوروں نے راکٹ اور گرینیڈ کا بھی استعمال۔ فوج کا کہنا ہے کہ جب حالات بے قابو ہوتے نظر آئے تو اس نے بھی فائرنگ کی اور لوگوں کو فوری طور پر علاقے سے نکل جانے کی ہدایت دی گئی۔

وزیر اعظم نجیب میقاتی نے ان ہلاکتوں کے لیے جمعہ 15 اکتوبر کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم کسی کو اپنے مفادات کے لیے ملک کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔'' 

تشدد کے بعد گرفتاریاں

لبنان کی فوج نے دیر رات بتایا کہ اس فائرنگ کے لیے نو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جس میں ایک شامی شہری بھی شامل ہے۔ لبنانی صدر میکائل عون نے اپنے ایک بیان میں ان واقعات کو ''ناقابل قبول'' قرار دیا اور کہا کہ تشدد کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔

لبنان کے سابق وزیر اعظم سعد حریری نے کہا کہ یہ تصادم ملک کی مہلک خانہ جنگی کی یاد دلاتی ہیں، جو 1975 اور 1990 کے دوران ہوا کرتی تھیں۔

دیگر ممالک کا رد عمل

اقوام متحدہ کے ایک ترجمان کے مطابق سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے لبنان کے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد کو روکیں اور اشتعال انگیز کارروائیوں سے گریز کریں۔

فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان میں کشیدگی کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے اس بات پر گہری تشویش لاحق ہے کہ آخر بیروت دھماکے کی تفتیش میں رخنہ اندازی کی کوششیں کیوں ہو رہی ہیں۔

امریکی دفتر خارجہ میں سینیئر اہلکار وکٹوریہ نو لینڈ بھی اپنے ایک بیان کہا کہ غیر جانبدار عدالتی نظام کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''لبنان کی عوام اور بیروت بندرگاہ کے دھماکے کے متاثرین سبھی برابری کے مستحق ہیں۔ یہ تشدد ناقابل قبول ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ داؤ پر کیا کیا لگا ہے۔''

ادھر کویت نے تشدد کے پیش نظر اپنے تمام شہریوں کو لبنان سے نکل جانے کا مشورہ دیا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)

بیروت دھماکے، لبنان میں تین روزہ سوگ

02:08

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں