1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتلبنان

لبنان پر اسرائیلی حملے: سینکڑوں ہلاک، 1000 سے زائد زخمی

23 ستمبر 2024

اسرائیلی فوج نے لبنان میں سینکڑوں اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران یہ اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین شدید ترین لڑائی ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف ایسے حملوں میں وسعت لانے کا اعلان کر دیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے لبنان میں سینکڑوں اہداف کو نشانہ بنایا ہے
اسرائیلی فوج نے لبنان میں سینکڑوں اہداف کو نشانہ بنایا ہےتصویر: Hussein Malla/AP/picture alliance

لبنان کی وزارت صحت کے مطابق آج بروز پیر ہونے والے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 274 افراد ہلاک اور 1,000 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ گزشتہ برس اکتوبر میں مشرق وسطیٰ میں شروع ہونے والے تنازعے کے بعد سے لبنان میں یہ سب سے ہلاکت خیز دن تھا۔

اس تازہ لڑائی اور حملوں سے پہلے گزشتہ منگل کو لبنان میں پیجر دھماکے ہوئے تھے، جس کا الزام حزب اللہ نے اسرائیل پر عائد کیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے ابھی تک ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

لبنان میں گزشتہ برس اکتوبر سے اب تک تقریباً 600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کی تھی لیکن 100 سے زیادہ سویلین بھی مارے جا چکے ہیں۔

لبنان میں مزید حملے ہوں گے، اسرائیل

اسرائیلی فوج نے سوشل میڈیا پر لبنان میں کارروائیوں کا اعلان کرتے ہوئے ایک تصویر بھی پوسٹ کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تل ابیب میں فوجی ہیڈ کوارٹر سے اسرائیلی فوجی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہیرزی ہالیوی نے اضافی حملوں کی منظوری دے دی ہے۔

لبنان میں کیا آئی فونز، سولر پینلز اور لیپ ٹاپس میں بھی دھماکے ہوئے؟

ہالیوی اور دیگر اسرائیلی رہنماؤں نے آنے والے دنوں میں حزب اللہ کے خلاف مزید سخت کارروائیاں کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ جنوبی اور مشرقی لبنان میں حزب اللہ کے ہتھیاروں کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیوں میں وسعت لائے گی۔

اسرائیلی فوج نے لبنان میں سینکڑوں اہداف کو نشانہ بنایا ہےتصویر: Ramiz Dallah/Anadolu/picture alliance

اسرائیلی فوجی حکام نے پیر کو کہا کہ وہ جنوبی لبنان میں 300 سے زائد مقامات کو نشانہ بنانے کے بعد لبنان کی مشرقی سرحد کے ساتھ وادی بقاع کے علاقوں میں حملے بڑھا رہی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے کہا کہ وادی کے رہائشیوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ان علاقوں کو خالی کر دیں، جہاں حزب اللہ ہتھیاروں کو ذخیرہ کر رہی ہے۔

حزب اللہ کے اسرائیل پر راکٹ حملے

ادھر حزب اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے گلیل (جلیل) میں اسرائیلی فوجی چوکی پر درجنوں راکٹ فائر کیے ہیں۔ اس جنگجو گروہ نے دوسرے دن بھی رافیل دفاعی فرم کی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جس کا صدر دفتر اسرائیل کے تیسرے بڑے شہر حیفہ میں ہے۔

حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین بڑھتے ہوئے حملوں اور جوابی حملوں نے ایک مکمل جنگ کا خدشہ بڑھا دیا ہے۔ حزب اللہ کے خلاف ایک مکمل جنگ ایسے وقت میں شروع ہو سکتی ہے، جب اسرائیل غزہ میں حماس سے لڑ رہا ہے اور حماس کے سات اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنائے گئے متعدد افراد کی واپسی کے لیے کوشاں ہے۔

ادھر حزب اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے گلیل (جلیل) میں اسرائیلی فوجی چوکی پر درجنوں راکٹ فائر کیے ہیںتصویر: Gil Nechushtan/AP Photo/picture alliance

حزب اللہ نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں اور حماس کے ساتھ یکجہتی کے طور پر اسرائیل کے خلاف اپنے حملے جاری رکھے گا۔ حزب اللہ ایران کا حمایت یافتہ ایک عسکریت پسند گروپ ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی شمالی سرحد پر  قیام امن کے لیے پرعزم ہے۔ ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ اسرائیل کی توجہ فضائی کارروائیوں پر ہے اور اس کا لبنان میں زمینی کارروائی کرنے کا کوئی فوری منصوبہ نہیں ہے۔ اس اہلکار نے مزید کہا کہ ان حملوں کا مقصد حزب اللہ کی اسرائیل میں مزید حملے کرنے کی صلاحیت کو روکنا ہے۔

اسرائیل لبنان پر حملوں کے 'خطرناک نتائج‘ سے خبردار رہے، ایران

دریں اثنا ایران نے اسرائیل کو لبنان پر حملوں کے'خطرناک نتائج‘ سے خبردار کیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اسرائیلی حملوں کو ''پاگل پن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اس نئی مہم جوئی کے ''خطرناک نتائج‘‘ سے خبردار رہے۔ کنعانی نے کہا کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے ''جرائم اور ان کی لبنان میں توسیع علاقائی اور بین الاقوامی امن کے لیے سنگین خطرے کی واضح مثال ہے۔‘‘

انہوں نے اسرائیل کے لیے امریکی حمایت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ ''ان جرائم کو روکنے کے لیے فوری ایکشن لیا جائے۔‘‘

ا ا / ع ب، ع ا (اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں