1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان کو ایک ’نسل کھو دینے‘ کا خطرہ لاحق ہے، اقوام متحدہ

15 اکتوبر 2024

یونیسیف کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق لبنان میں چار لاکھ سے زیادہ بچے بے گھر اور 1.2 ملین تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر لبنان میں جنگ بندی نہ کی گئی تو موجودہ بد تر حالات بدترین ہو سکتے ہیں۔

غزہ اور لبنان میں جاری لڑائیوں مین متاثرہ بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے
غزہ اور لبنان میں جاری لڑائیوں مین متاثرہ بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہےتصویر: AFP

اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ذیلی ادارے یونیسف نے کہا ہے کہ لبنان میں گزشتہ تین ہفتوں میں 400,000 سے زیادہ بچے بے گھر ہوچکے ہیں۔ یونیسف کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے پیر کے روز اس چھوٹے سے ملک میں ایک پوری ''کھوئی ہوئی نسل‘‘کے بارے میں متنبہ کیا ہے، جو متعدد بحرانوں سے دوچار ہے اور اب اسرائیل نے لبنانی عکسریت پسند گروہ  حزب اللہ کے خلاف اپنی مہم کو تیز کر دیا ہے، جس میں زمینی حملے بھی شامل ہیں۔

حالیہ اسرائیلی کارروائیوں کے دوران گزشتہ تین ہفتوں کے دوران لبنان میں 1.2 ملین لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر بیروت اور شمال میں دوسری جگہوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ انسانی ہمدردی کے کاموں کے لیے یونیسیف کے ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ٹیڈ چیبان نے ان اسکولوں کا دورہ کیا، جو بے گھر خاندانوں کی میزبانی کے لیے پناہ گاہوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

لبنان میں جاری لڑائی کے تین ہفتون میں ایک اعشاریہ دو ملین لوگ بے گھر ہو چکے ہیںتصویر: Fadel Itani/AFP/Getty Images

چیبان نے بیروت میں دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''جس چیز نے مجھے پریشان کیا وہ یہ ہے کہ یہ جنگ ابھی تین ہفتے پرانی ہے اور بہت سے بچے متاثر ہو چکے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، '' آج  1.2 ملین بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ان کے سرکاری اسکولوں کو یا تو ناقابل رسائی بنا دیا گیا ہے، کیونکہ جنگ کی وجہ سے ان عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے یا پھر انہیں پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ملک میں ایک نسل ختم ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘

چیبان کا مزید کہنا تھا، ''لبنان میں کچھ نجی اسکول اب بھی کام کر رہے ہیں، سرکاری اسکولوں کا نظام جنگ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے، اس کےساتھ ساتھ ملک کے سب سے زیادہ کمزور افراد جیسے کہ فلسطینی اور شامی مہاجرین بھی متاثر ہوئے ہیں۔ میں جس چیز کے بارے میں پریشان ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس لاکھوں لبنانی، شامی، فلسطینی بچے ہیں جو اپنی تعلیم سے محروم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔‘‘

لبنانی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں 2,300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 75 فیصد پچھلے مہینے کے دوران مارے گئے۔ چیبان نے کہا کہ پچھلے تین ہفتوں میں 100 سے زیادہ بچے ہلاک ہوئے اور 800 سے زیادہ زخمی۔ انہوں نے کہا کہ بے گھر بچوں کو بھیڑ والی پناہ گاہوں میں گھسا دیا جاتا ہے، جہاں تین یا چار خاندان پلاسٹک شیٹ کی مدد سے ایک ہی  کمرے کو تقسیم کر کے اس میں رہتے ہیں اور جہاں 1,000 لوگ صرف  12 بیت الخلاء استعمال کر سکتے ہیں اور ان میں سے بھی بعض بند پڑے ہیں۔

حکام کے مطابق زیادہ تر بے گھر افراد دارالحکومت لبنان یا مشرقی علاقوں کا رخ کر رہے ہیںتصویر: Louisa Gouliamaki/REUTERS

بے گھر ہونے والے بہت سے خاندانوں نے سڑکوں کے کنارے یا ساحلوں پر خیمے لگا رکھے ہیں۔

چیبان نے کہا کہ زیادہ تر بے گھر بچوں کو گولہ باری یا گولیوں کی آوازیں سننے سمیت بہت سے پُر تشدد تجربات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور  اب وہ کسی بھی اونچی آواز سے گھبرا جاتے ہیں۔  لڑائی میں شدت نے ایک سو سے زیادہ بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کو بھی بند کر دیا ہے، جبکہ بارہ ہسپتال یا تو اب کام نہیں کر رہے ہیں یا جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔

 پانی کی فراہمی کا بنیادی ڈھانچہ بھی حملوں کی زد میں آ گیا ہے۔ چیبان نے کہا کہ پچھلے تین ہفتوں میں، تقریباً 350,000 لوگوں کو پانی فراہم کرنے والے 26 واٹر اسٹیشنز کو نقصان پہنچا ہے۔ ان کی مرمت کے لیے یونیسیف مقامی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے شہروں کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت پر زور دیا۔ انہوں نے لبنان اور غزہ میں جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی ارادے اور اس احساس کی ضرورت ہے کہ اس تنازعے کو فوجی ذرائع سے حل نہیں کیا جا سکتا۔

چیبان نے مزید کہا، ''ہمیں یہ  یقینی بنانا ہے کہ یہ لڑائی رک جائے، یہ پاگل پن رک جائے، اس سے پہلے کہ ہم اس قسم کی تباہی اور درد اور تکلیف اور موت کو پہنچیں جو ہم نے غزہ میں دیکھی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ لبنان میں بہت ساری انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے جو 108 ملین ڈالر کی ہنگامی اپیل کی گئی تھی، اس پر تین ہفتوں میں صرف آٹھ فیصد فنڈ دیا گیا ہے۔

ش ر⁄ اب ا، ک م (اے پی)

لبنانی حکومت اور فوج، اپنے ہی ملک ميں خاموش تماشائی

02:58

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں