لبنان میں کرپشن اور غربت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران ایک شخص کی ہلاکت کے بعد پر تشدد مظاہروں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔
اشتہار
لبنان کے شمالی شہر طرابلس میں جمعرات 28 جنوری کو سکیورٹی فورسز کو پتھراو کرنے والے نوجوان مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل استعمال کرنے پڑے۔ ملک میں کرپشن، بے روزگاری، غربت اور اسی کے ساتھ کورونا وائرس کی سخت بندشوں کی وجہ سے لوگوں میں زبردست غم و غصہ اور بے چینی پائی جاتی ہے۔
احتجاجی مظاہروں میں شامل ایک تیس سالہ شخص کی موت ہوگئی جس کے بعد مظاہروں میں مزید شدت آگئی ہے اور تشدد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ طرابلس میں گزشتہ چار روز سے یہ سلسلہ جاری ہے اور بہت سے مقامات پر سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔
لبنان کی 'نیشنل نیوز ایجنسی' کے مطابق ان جھڑپوں میں اب تک 26 پولیس اہلکاروں سمیت 220 افراد زخمی ہوئے ہیں اور چار روز گزر جانے کے باوجودتصادم میں کمی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔
مشتعل مظاہرین نے اہم سیاسی رہنماؤں کی رہائش گاہوں کے باہر جمع ہوکر بطور احتجاج گاڑیوں اور کوڑے میں آگ لگا دی اور نگرانی کے لیے وہاں نصب کیمروں کو بھی توڑ دیا۔ عوام میں ہر جانب پھیلی بے روزگاری، غربت اور کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی جیسے مسائل کے لیے حکومت کے خلاف شدید ناراضگی ہے۔
لبنان کا سب سے غریب شہر ہونے کی وجہ سے طرابلس ملک کے سیاسی طبقے کے خلاف مظاہرے اور فسادات کا مرکز رہا ہے۔
تشدد میں اضافہ
گزشتہ بدھ کی شب کو مظاہروں کے دوران 30 سالہ عمر طبیبی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ہونے والی فائرنگ میں گولی لگنے سے ہلاک
ہوگئے تھے اور ان کی تدفین کے فوری بعد شہر میں ہر جانب پھر سے پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ پھوٹ پڑا۔
ملک میں اچانک کووڈ انیس کے کیسز میں کافی اضافے کے بعد حکومت نے اس پر قابو پانے کے لیے 21 جنوری سے آٹھ فروری تک ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔
ملک میں اس وقت غیر معمولی معاشی اور مالی بحران کا سامنا ہے اور ایسی صورت میں لاک ڈاؤن میں توسیع سے زندگی مزید مشکل ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ہفتے ہونے والے تشدد کے دوران کچھ زیادہ ہی افرا تفری کا ماحول رہا اور صورت حال کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
دوران شب ہونے والے مظاہروں میں بڑی تعداد میں نوجوان حصہ لے رہے۔ اطلاعات کے مطابق بدھ کو مظاہرین نے میونسپل کی عمارت میں بھی داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ بعض مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر ہینڈ گرینڈ بھی پھینکے جس کا سکیورٹی فورسز نے واٹر کینن، آنسو گیس کے شیل اور پھر فائرنگ سے جواب دیا۔
بدترین معاشی بحران
تقریبا ً 70 لاکھ کی آبادی والے ملک لبنان میں پہلے ہی سے معاشی حالات کافی خراب تھے اور پھر اسی صورتحال میں کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے جو سخت اقدامات کیے گئے اس سے حالات مزید ابتر ہوگئے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق لبنان میں اس وقت پندرہ لاکھ مہاجرین ہیں جو ملک میں مستقل پناہ چاہتے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔