1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لتھوانیا میں ہم جنس پرستوں کی پہلی پریڈ

9 مئی 2010

جمعہ کے دن یورپی ملک لتھوانیا میں ہم جنس پرستوں کی پہلی پریڈ منعقد کی گئی جس کے خلاف ہزاروں افراد نے سخت مظاہرے بھی کئے۔

مطاہرین کے ساتھ ساتھ گھوڑوں پر سوار پولیستصویر: picture alliance/dpa

لتھوانیا کے دارالحکومت ویلنیئس میں ہوئی اس پریڈ میں کوئی پانچ سو افراد نے حصہ لیا۔ اس دوران ممکنہ پر تشدد واقعات کے پیش نظر سخت سیکیورٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔ مظاہرین کی طرف سے جارحیت کے بعد پولیس نے تقریباً ایک ہزار مظاہرین کو گرفتار کیا جبکہ ایک موقع پر تو مظاہرین کو منشتر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے بھی برسائے گئے۔

اطلاعات کے مطابق ہم جنس پرستوں کی یہ پریڈ تو پرامن رہی تاہم بعد ازاں اس وقت پر تشدد واقعات سامنے آئے جب مظاہرین نے اُس پارک میں داخل ہونے کی کوشش کی جہاں یہ پریڈ منعقد کی جا رہی تھی ۔

یہ پریڈ دارالحکومت میں واقع ایک دریا کے کنارے منعقد کی گئی تھی۔ اس دوران کئی مظاہرین نے بذریعہ کشتی دریا پار کر کے پریڈ کی جگہ جانے کی کوشش کی تاہم پولیس نے انہیں راستے میں ہی روک لیا۔ پریڈ کو پر امن بنانے کے لئے چھ سو پولیس اہلکار شکاری کتوں کے ہمراہ تعینات کئے گئے تھے۔

اس طرح کی پریڈز دیگر یورپی ممالک میں بھی منعقد کی جاتی ہیںتصویر: AP

اس پریڈ میں شریک سوئڈش وزیر برائے یورپی امور بیرگٹا اولسن نے پریڈ کے حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ’’ آج ہم آزادی کے لئے مارچ کر رہے ہیں، آج ہم برابری کے لئے مارچ کر رہے ہیں، آج ہم یورپ کے لئے مارچ کر رہے ہیں تاکہ ہم جنس پرستی کے خلاف بنا ہوا بے جا خوف ختم ہو سکے۔‘‘ اس پریڈ میں شریک اولسن سب سے اعلیٰ غیر ملکی شخصیت تھیں۔

عوامی جائزوں کے مطابق یورپی ملک لتھوانیا میں دو تہائی اکثریت ہم جنس پرستوں کی اس پریڈ کے خلاف تھی۔ اس سابقہ سوویت ری پبلک کی کل آبادی تین اعشاریہ چار ملین ہے ۔ اس ملک میں زیادہ تر لوگ رومن کیتھولک چرچ کے پیروکار ہیں، جن کے نزدیک ہم جنس پرستی ایک بہت بڑا گناہ ہے۔

لتھوانیا کی ایک عدالت نے گزشتہ ہفتے اس پریڈ کے منعقد ہونے پر پابندی بھی عائد کی تھی تاہم ایک اپیل کے بعد یہ پابندی ہٹا لی گئی۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں