1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

لداخ: ’بھارتی علاقوں میں چینی خیمے نصب‘

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
26 جولائی 2021

 بھارتی حکام کے مطابق مشرقی لداخ کے ڈیمچوک علاقے میں چین نے مختلف مقامات پر اپنے ٹینٹ نصب کر لیے ہیں۔ اس علاقے میں کشیدگی ختم کرنے کے لیے فریقین میں کئی ماہ سے بات چیت تک نہیں ہوئی ہے۔

Indien Kashmir | Indischer Soldat
تصویر: Sajad Hameed/Pacific Press/picture alliance

بھارت میں بعض سینیئر حکام نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ مشرقی لداخ کے ڈیمچوک علاقے میں چارڈنگ نالے کے آس پاس چین نے مبینہ ان علاقوں میں اپنے خیمے نصب کر لیے ہیں، جو کچھ وقت پہلے تک بھارت کے کنٹرول میں ہوا کرتے تھے۔ معروف انگریزی اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ نے بغیر نام لیے بعض سینیئر حکومتی افسروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان، ’’خیموں میں بعض نام نہاد عام شہری قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔‘‘ بھارت نے کئی بار چین سے ان علاقوں کو خالی کرنے کو کہا ہے تاہم، ’’ان کی مستقل موجودگی برقرار ہے۔‘‘

سن انیس سو نوے میں بھارت اور چین کے درمیان جب سرحدی علاقوں سے متعلق جوائنٹ ورکنگ گروپ تشکیل دیا گيا تھا، اس وقت بھی فریقین نے ڈیمچوک اور ٹرگ چوٹیوں کو متنازعہ علاقہ قرار دیا تھا۔ تاہم جس علاقے میں اس وقت چینی ٹینٹ نصب ہیں، اس پر پہلے بھارت کا کنٹرول تھا۔

کشیدگی کم کرنے کے لیے بات چيت

بھارت میں دفاعی ماہرین کے مطابق گزشتہ برس مئی میں فریقین کے درمیان زبردست کشیدگی کے ماحول میں چینی فوج نے، دریائے گلوان کی وادی، میدانی علاقے ڈیپسنگ، پیونگانگ سو جھیل، ہاٹ اسپرنگ اور گوگرا جیسے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت سے سرحدی علاقوں میں حالات کشیدہ رہے ہیں۔

اس کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے بھارت اور چین کے فوجی افسران کے درمیان اب تک بات چیت کے گيارہ دور  ہو چکے ہیں تاہم ان کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔ چین نے چھبیس جولائی پیر کے روز کور کمانڈر کی سطح پر بارہویں دور کی بات چيت کی تجویز پیش کی تھی تاکہ بعض متنازعہ علاقوں پر پھر سے بات ہو سکے تاہم بھارت چونکہ آج کارگل جنگ کی برسی منا رہا ہے، اس لیے اس نے اسے موخر کرنے کی اپیل کی تھی۔

اطلاعات کے مطابق بھارتی فوجی حکام نے چند روز کی تاخیر کی گزارش کی تھی اس لیے امید ہے کہ اب اگست کے پہلے ہفتے میں یا اس سے پہلے بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ آخری بار دونوں کے درمیان یہ بات چیت رواں برس اپریل کے مہینے میں ہوئی تھی۔

تصویر: Mukhtar Khan/AP/picture alliance

باہمی اعتماد کی کمی

بھارتی حکام کے مطابق مشرقی لداخ میں اب گزشتہ برس کی طرح ویسی شدید کشیدگی نہیں ہے تاہم اس پیچیدہ صورت کے حال میں تاخیر کی اہم وجہ دونوں میں باہمی اعتماد کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی فریقین نے اپنی اپنی جانب تقریبا پچاس ہزار کے قریب فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ بھارتی حکام کے مطابق چین اپنی جانب کے فوجیوں کو تبدیل بھی کرتا رہا ہے اور وہ مشرقی لداخ میں، ’’فوجیوں کی رہائش گاہوں کی تعمیر، اسلحہ ذخیرہ کرنے اور توپ خانوں کی پوزیشنیں مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ بہت تیزی سے عسکری ڈھانچے تعمیر کر رہا ہے۔‘‘ 

اس دوران بھارت نے بھی خطے میں دفاعی نکتہ نظر سے اہم ساز و سامان کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے اور لداخ میں نئے ہتھیار پہنچائے ہیں۔ گزشتہ برس اگست اور ستمبر کے مہینے میں اسی علاقے میں برسوں بعد وارننگ شاٹس بھی فائرکیے گئے تھے۔ تاہم اس دوران سفارتی اور فوجی سطح پر ہونے والی بات چیت کے بعد کشیدگی میں کچھ کمی آئی ہے۔ بات چیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس برس فروری میں فریقین نے پیونگانگ سو جھیل سے پیچھے ہٹنے پر اتفاق کیا تھا اور اس پر عمل ہوا تاہم باقی دیگر علاقوں میں اب بھی حالات جوں کے توں برقرار ہیں۔

تصویر: AFP/M.A. Archer

طویل تنازعہ

بھارت اور چین میں شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان طویل سرحدی تنازعہ بھی ہے۔ ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں کے درمیان گزشتہ ایک برس سے بھی زیادہ وقت سے مشرقی لداخ میں کشیدگی کا ماحول ہے۔

گزشتہ برس پندرہ جون کی درمیانی شب مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے کم سے کم بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔  بھارت کا موقف ہے کہ ایل اے سی پر گزشتہ برس اپریل تک جو پوزیشن تھی، اس کو بحال کیا جائے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی فوجوں کو پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔

بھارت میں اس پر کافی تشویش پائی جاتی ہے تاہم حکومت کا رویہ محتاط ہے اور ابھی تک سفارتی یا پھر فوجی سطح پر اس کے خلاف کسی بیان بازی سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔

کشمیر: کیا ایل او سی پر بسے گاؤں کے حالات بدل جائیں گے؟

04:16

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں