1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

بھارت اور چین میں ایک اور پوسٹ سے فوجیں پیچھے کرنے پر اتفاق

صلاح الدین زین
9 ستمبر 2022

چین اور بھارت نے مشرقی لداخ میں گوگرا ہاٹ اسپرنگس سے اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ دونوں فوجوں کے درمیان 16ویں کور کمانڈر سطح کی بات چیت کے بعد ان اقدام پر اتفاق ہوا تھا۔

Indien | Bauarbeiten am Zoji La Pass
تصویر: Yawar Nazir/Getty Images

چین اور بھارت نے آٹھ ستمبر جمعرات کے روز اعلان کیا کہ مشرقی لداخ میں تعینات ان کی فوجوں نے گوگرا ہاٹ اسپرنگس کے علاقے میں پیٹرولنگ پوائنٹ 15 سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے۔ سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان مئی 2020 سے ہی کشیدگی جاری ہے، جسے ختم کرنے کی یہ ایک نئی کوشش ہو سکتی ہے۔

آئندہ ہفتے ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہی اجلاس ہونے والا ہے، جس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ بھی شرکت کر رہے ہیں۔

لداخ: چین ایک اور مقام سے فوجیں پیچھے ہٹانے پر متفق

تاہم ابھی تک کسی بھی فریق نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ آیا دونوں رہنما سربراہی اجلاس کے موقع پر دو طرفہ بات چیت کریں گے یا نہیں۔ نومبر 2019 میں برازیلیا میں برکس سربراہی اجلاس کے دوران دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تھی، تاہم سرحدی تعطل کے آغاز کے بعد سے اب تک دونوں میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ اس اجلاس سے عین قبل دونوں نے ایک مشترکہ بیان میں اس کا اعلان کیا ہے۔

 دونوں کا مشترکہ بیان

اس سلسلے میں چین اور بھارت نے آٹھ ستمبر جمعرات کے روز ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے کور کمانڈر سطح کی 16ویں میٹنگ میں  فوجوں کو پیچھے کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ 

بیان کے مطابق، "اس کے تحت گوگرا ہاٹ اسپرنگس (پیٹرولنگ پوائنٹ 15) کے علاقے میں بھارتی اور چینی فوجیوں نے مربوط اور منصوبہ بند طریقے سے پیچھے ہٹنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ یہ اقدام سرحدی علاقوں میں امن و امان کے لیے سازگار ہے۔"

16ویں کور کمانڈر سطح کی بات چیت رواں برس 17 جولائی کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ہوئی تھی اور اسی دوران اس پر اتفاق ہوا تھا، تاہم اس کا اعلان اب کیا گیا ہے۔

سن 2020 میں ایل اے سی پر شروع ہونے والی کشیدگی کے بعد سے، کئی سرحدی علاقوں میں دونوں ملکوں کی فوجیں بالکل ایک دوسرے کے آمنے سامنے  کھڑی رہی ہیں، جن میں سے گوگرا ہاٹ اسپرنگس بھی ایک تھا۔ تاہم اب اس علاقے سے دونوں ملکوں کی فوجیں پہلے کی'سرحدی تنازعہ پرگفتگو جاری ہے تاہم کسی بات کی ضمانت نہیں': بھارت طرح اپنی پچھلی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور معمول کی پیٹرولنگ دوبارہ بحال ہو جائے گی۔ 

لیکن دونوں ممالک کے درمیان سرحد سے متعلق دیگر متنازعہ مسائل ابھی بھی برقرار ہیں۔ ڈیپسانگ کے میدانی علاقوں نیز چارڈنگ نالہ کے علاقوں میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر اب بھی چین کے زیر کنٹرول ہیں۔ بھارت کا الزام ہے کہ چینی افواج نے ان علاقوں میں اس کی فوج کی معمول کی گشت  کو روک رکھا ہے۔

ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ دو برس سے بھی زائد عرصے سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہےتصویر: Sajad Hameed/Pacific Press/picture alliance

شنگھائی تعاون اجلاس

گزشتہ برس بھی دونوں ممالک کی افواج نے متنازعہ پیٹرولنگ پوائنٹ 17 اے سے بھی اپنی فوجوں کو پیچھے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ 12 بار کور کمانڈر سطح کی میٹنگ کے بعد ہوا تھا۔ اس کے بعد سے تین کور کمانڈر سطح کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی تاہم 16ویں اجلاس میں بات آگے بڑھ سکی۔

 بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔

ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ دو برس سے بھی زائد عرصے سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پچھلے برس پندرہ جون کو رات گئے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے کم از کم بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

چند روز قبل ہی بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ اگر چین سرحدی علاقوں میں امن و سکون کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو بھارت اور چین کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

ایس جے شنکر سے جب بھارت اور چین کے تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے کہا، ''ہمارے تعلقات نارمل نہیں ہیں اور یہ نارمل ہو بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ سرحد پر صورتحال پہلے سے نارمل نہیں ہے۔"

بھارت میں بلتی تہذیب و ثقافت کا گاؤں

04:55

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں