1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور چین نے فوجیں ہٹانی شروع کر دیں

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
11 فروری 2021

بھارت کا کہنا ہے کہ خطہ لداخ میں کشیدگی کم کرنے کے حوالے سے چین کے ساتھ ایک سمجھوتہ طے پا گيا ہے جس کے تحت فریقین نے بعض مقامات سے اپنی فوجیں پیچھے ہٹانی شروع کر دی ہیں۔

Indien Rajnath Singh in Srinagar
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin

بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جمعرات گیارہ فروری کو پارلیمان میں چین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں نے مشرقی لداخ میں پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سے فوجیں پیچھے ہٹانے پر اتفاق کرلیا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

بھارتی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ''میں ایوان کو یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے پختہ ارادوں اور دیرپا مذاکرات کے نتیجے میں پینگانگ جھیل کے شمال اور مغربی کناروں سے فوجوں کے پیچھے ہٹانے سے متعلق چین کے ساتھ ایک سمجھوتہ ہوگیا ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''فوجوں کی  واپسی کے لیے چین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق، دونوں فریق مرحلہ وار، مربوط اور مستند انداز میں فوج کو پیچھے ہٹائیں گے۔''

اس سے قبل بھارتی میڈیا میں یہ خبر چین کے حوالے سے شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کی فوجوں نے پینگانگ جھیل کے متنازعہ علاقوں سے فوجیں ہٹانی شروع کر دی ہیں۔ تاہم بھارت نے اس خبر پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے کہا تھا کہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ پارلیمان کو اس پیش رفت سے آگاہ کریں گے۔

معاہدہ کیا ہے؟

بھارتی وزیر دفاع نے جس سمجھوتے کی تفصیل ایوان کو بتائی ہیں اس کے مطابق فریقین نے ابھی صرف پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سے فوجوں کو پیچھے ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی ہے جبکہ دیگر متنازعہ علاقوں سے متعلق فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور وہاں اب بھی صورت حال جوں کی توں برقرار رہے گی۔ بیان کے مطابق دیگر علاقوں میں بھی کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری رہیگا۔ 

تصویر: Sajad Hameed/Pacific Press/picture alliance

راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ پینگانگ جھیل کے، ''مشرق کی سمت شمالی کنارے پر چین اپنی فوج فنگر آٹھ کے  پاس ہی رکھے گا جبکہ بھارت اپنی فوجی یونٹ فنگر تین کے پاس اپنی مستقل پوسٹ دھن سنگھ تھاپا چوکی کے پاس تعینات کرے گا۔ جھیل کے جنوبی ساحلی خطے میں بھی فریقین کی طرف سے ایسی ہی کارروائیاں کی جائیں گی۔''

''باہمی اتفاق سے ان اقدامات کے تحت پیش رفت کی جائے گی اور اپریل 2020 سے پہلے شمالی اور جنوبی ساحلوں پر فریقین کی جانب سے جو بھی تعمیرات وغیرہ کی گئی ہیں، انہیں بھی وہاں سے ہٹا کر پہلے والی صورت حال کو بحال کر نے پر اتفاق ہوا ہے۔''

بھارتی وزیر دفاع کا یہ بھی کہنا تھا کہ فریقین نے جھیل کے شمالی کنارے پر گشت سمیت تمام دیگر فوجی سرگرمیوں پر بھی اس وقت تک روک لگانے پر اتفاق کیا ہے جب تک اس بارے میں کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پا جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ جب فوجی سطح کے مذاکرات میں کوئی معاہدہ طے پا جائیگا تبھی اس علاقے میں فوجی گشت دوبارہ شروع کی جائیگی۔

بھارتی وزیر دفاع نے اس موقع پر یہ دعوی بھی کیا کہ بھارت نے چین سے یہ معاہدہ کرنے کے لیے اپنی ایک انچ بھی زمین کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے بھارت نے کبھی بھی چینی دعوؤں کو تسلیم نہیں کیا۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ برس اپریل تک بھارت پینگانگ جھیل کی فنگر آٹھ تک گشت کیا کرتا تھا اور تنازعے کے بعد چین نے اسے فنگر چار تک محدود کر دیا تھا۔ تاہم اب نئے معاہدے کے تحت اس کی فوج فنگر تین کے پاس ہی رکے گی۔

لداخ میں بھارتی فوج کی بھاری تعیناتی، لوگوں میں پریشانی

02:52

This browser does not support the video element.

انہوں نے کہا، ''پاکستان نے غیر قانونی طور پر چین کو بھارتی زمین دیدی تھی تاہم ہم ایسے کسی بھی معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ چین بھارت کے ایک بہت بڑے علاقے پر اپنا دعوی بھی کرتا ہے تاہم ہم نے کبھی ان دعوؤں کو تسلیم نہیں کیا ہے۔'' 

 بھارت چین سرحدی تنازعہ

بھارت اور چین میں شمالی مشرقی علاقے سکم سے لیکر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر کی سرحد مشترک ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن

 آف ایکچوؤل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان دیرینہ سرحدی تنازعہ ہے۔ ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں کے درمیان گزشتہ تقریبا آٹھ ماہ سے مشرقی لداخ میں کشیدگی کا ماحول رہا ہے۔

بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا گزشتہ برس مئی میں ہوئی تھی اور جون کے وسط میں وادی گلوان میں دونوں فوجیوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20  فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد سے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے تقریباً نو ادوار ہوئے جس کے بعد یہ تازہ پیش رفت ہوئی ہے۔

بدھ اور مسلم تہذيبوں سے آرستہ لداخ

04:24

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں