1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لعل شریف کا اسکول، اندھرے میں روشنی کی کرن

عدنان باچا، سوات19 مئی 2015

ضلع ملاکنڈ میں چوہتر سالہ لعل شریف نے خود ہی سنگلاخ چٹانیں توڑ کر زمین کی سطح ہموار کی اور پھر درختوں کے شاخوں سے بچوں کے لئے چھت کا انتظام کیا۔ اسکول کی صفائی اور تین کلو میٹر دوری سے پانی بھی لعل خود ہی لاتے ہیں۔

Local Heroes Artikelmotiv Urdu PNG
تصویر: DW

خیبر پختونخواہ کے ضلع ملاکنڈ کے صدر مقام بٹ خیلہ سے پینتالیس کلومیٹر کی مسافت پر پہاڑی علاقے آگرا نارنجئی کے باہمت لیکن ناخواندہ لعل شریف نے ستائیس اپریل 1992ء میں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو محسو س کرتے ہوئے اپنی خاندانی زمین پر بچوں کے لئے سکول بنوایا۔ لعل شریف نے اپنی پہاڑی زمین سے خود ہی سنگلاخ چٹانیں توڑ کر زمین کی سطح ہموار کی اور پھر درختوں کی شاخوں کو توڑ کر بچوں کے لئے چھت کا انتظام کیا۔ بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کے لیے لوگوں کو ترغیب بھی دی اور ایک معلم کا بندوبست کیا۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے لعل شریف کا کہنا تھاکہ وہ خود بھی ناخواندہ ہے، ’’جب میں کسی دوسرے گاؤں جاتا اور وہاں پر بچوں کو اسکول جاتے دیکھتا تو شدت سے یہ محسوس ہوتا کہ ہمارے گاؤں میں بھی اسکول ہونا چاہیے۔ میں نے اپنے گھر کے قریب اپنی خاندانی زمین کو اسکول کے لئے وقف کیا، پہاڑ توڑ کر سطح ہموار بنائی اور درختوں سے چھت کا انتظام کیا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسکول میں نرسری سے پرائمری تک بچوں کے لئے ایک ہی استاد ہے، جو بیک وقت تمام بچوں کو پڑھاتا ہے، ’’اسکول کو حکومت نے مکتب کا درجہ تو دے دیا ہے لیکن تئیس سال گزرنے کے باوجود بھی اسکول اپنی پرانی حالت میں ہے۔‘‘

تصویر: DW/A. Bacha

لعل شریف کے دن کا آغاز اسکول کی صفائی سے ہوتا ہے جبکہ اس کی غیر موجودگی میں یہ کام ان کی ساٹھ سالہ اہلیہ لعل ذادگئی انجام دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لعل شریف تین کلو میٹر دور ندی سے اسکول کے بچوں کے لئے پانی لاتا ہے اور لعل شریف یہ کام بلا معاوضہ کرتے ہیں۔ لعل شریف کے مطابق گاؤں کے زیادہ تر افراد ناخواندہ ہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پر نہ تو کوئی خاتون ٹیچر ہے اور نہ ہی ڈاکٹر، ’’علاقے کی آبادی چھ ہزار نفوس پر مشتمل ہیں، یہاں کے لوگ تعلیم سے محبت کرتے ہیں اور یہاں کے طلباء و طالبات کئی کلو میٹر دور واقع مڈل اور ہائی سکول جاتے ہیں۔‘‘

تصویر: DW/A. Bacha

نارنجئی اسکول کے طلباء و طالبات ایک ساتھ زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایک کھلا میدان ہے اور درختوں کے شاخوں سے بنائی گئی ایک چھت، جب بارش ہوتی ہے تو اسکول سے بھی چھٹی ہو جاتی ہے۔ استاد تاجبر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسکول میں اس وقت سو سے زائد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ’’میں خود بھی کئی کلو میٹر دور سے روزانہ یہاں آتا ہوں۔ یہاں کے لوگ اور بچے تعلم سے محبت کرنے والے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اسکول کی عمارت بنوانے اور دیگر سہولیات فراہم کرنے میں کردار ادا کرے۔‘‘

اسکول کی طالبہ حسینہ نے بتایا کہ وہ تعلیم حاصل کر کے ٹیچر بننا چاہتی ہیں کیونکہ ان کے علاقے میں کوئی ٹیچر نہیں ہے، ’’ ہم اس تپتی دھوپ میں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں، ہمارے صاف ستھرے کپڑے خراب ہوتے ہیں، ہمیں شدید گرمی لگتی ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

حسینہ مزید کہتی ہیں کہ جب میں دیگر علاقوں میں اسکولوں کے بچوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے کہ وہاں تو بچوں کے لئے عمارت ہے ،کلاس رومز ہیں، ڈیسک ہیں، تمام سہولیات ہیں اور ہمارے لئے کچھ نہیں۔

تصویر: DW/A. Bacha

لعل شریف کی اس جدو جہد کو علاقے کے لوگ بھی سراہتے ہیں۔ تعلیم کے لئے سرگرم ایکٹیوسٹ ڈاکٹر جواد نے بتایا کہ یہ بات قابل تعریف ہے کہ لعل شریف اس عمر میں تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں، ایسے لوگوں ہی کی بدولت ہمارا معاشرے میں روشنی ہے اور لوگ تعلیم کی اہمیت کو محسوس کر رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں