لفتھانزا کے زمینی عملے کے بیس ہزار کارکنوں کا ہڑتال کا فیصلہ
25 جولائی 2022
جرمنی کی سب سے بڑی فضائی کمپنی لفتھانزا کے زمینی عملے کے تقریباﹰ بیس ہزار کارکن اپنی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق تنازعے میں بدھ ستائیس جولائی کی صبح سے چوبیس گھنٹے سے زائد کی احتجاجی ہڑتال شروع کر دیں گے۔
اشتہار
لفتھانزا کے گراؤنڈ سٹاف کے ان ہزارہا کارکنوں کو ایک روزہ تنبیہی ہڑتال کرنے کی ہدایت ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین 'ویردی‘ نے کی، جس نے کہا کہ یورپ کی سب سے بڑی فضائی کمپنیوں میں شمار ہونے والی اس جرمن ایئر لائن کے نمائندوں کے ساتھ 'ویردی‘ کی کارکنوں کی اجرتوں میں اضافے سے متعلق بات چیت بے نتیجہ رہنے کے بعد اب ہڑتال لازمی ہو گئی ہے۔
'ویردی‘ نے آج پیر پچیس جولائی کی صبح اعلان کیا کہ یہ ہڑتال بدھ ستائیس جولائی کی صبح عالمی وقت کے مطابق ایک بج کر پینتالیس منٹ پر شروع ہو گی، جو جمعرات کی صبح عالمی وقت کے مطابق چار بجے تک جاری رہے گی۔
اس دوران اس جرمن ایئر لائن کا زمینی عملہ اپنا کام بند رکھے گا اور دیگر یورپی ممالک کے ہوائی اڈوں کی طرح ان دنوں جرمن ہوائی اڈوں پر بھی نظر آنے والے مسافروں کے بے پناہ رش میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ خدشہ ہے کہ اس ہڑتال کے باعث لاکھوں مسافروں کو اضافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ممکن ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں مسافر پروازیں منسوخ بھی کرنا پڑ جائیں۔
اب تک چھ ہزار سے زائد پروازیں منسوخ
کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کے خاتمے کے بعد اور یورپ میں موسم گرما کے تعطیلاتی سیزن کے آغاز کے بعد سے کئی یورپی ممالک میں ان دنوں ہوائی اڈوں پر بے تحاشا رش نظر آتا ہے اور مسافروں کو سفر سے پہلے کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔
اس تاخیر کی وجہ مسافروں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ ساتھ ہوائی اڈوں پر کام کرنے والے عملے کی ناکافی تعداد بھی بن رہی ہے۔ ایسے میں جرمنی بھر کے ہوائی اڈوں پر آئندہ بدھ کی صبح سے لے کر جمعرات کی صبح تک لفتھانزا کے گراؤنڈ سٹاف کا ہڑتال پر ہونا مزید لاکھوں مسافروں کی تکالیف میں اضافے کا سبب بنے گا۔
جرمنی کی سب سے بڑی فضائی کمپنی لفتھانزا انہی بحرانی حالات پر قابو پانے کی کوشش میں موجودہ موسم گرما میں اب تک اپنی تقریباﹰ چھ ہزار مسافر پروازیں پہلے ہی منسوخ کر چکی ہے۔
فضائی کمپنیوں کا اب کیا ہو گا؟
ایوی ایشن کی صنعت پر کورونا وائرس کے انتہائی تباہ کن اثرات پڑے ہیں۔ جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا کو حکومت کی مالی امداد ملنے والی ہے۔ ناقدین اس پر ناخوش ہیں۔ تاہم فضائی کمپنیوں کے لیے ریاستی امداد کوئی نئی بات نہیں۔
تصویر: AP
امداد چاہیے، مداخلت نہیں
جرمن حکومت ہوائی کمپنی لفتھانزا کو نو بلین یورو کی امداد دے رہی ہے۔ اس امداد کے بعد برلن حکومت لفتھانزا کے بیس فیصد حصص کی مالک بن جائے گی اور اس شرح میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر نے واضح کیا ہے کہ مالی امداد کے باوجود حکومت کی جانب سے کمپنی کے کارپوریٹ فیصلوں میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
اسمارٹ ونگز کی اسمارٹ ڈیل
چیک جمہوریہ کی حکومت ہوائی کمپنیوں کے گروپ اسمارٹ ونگز پر مزید کنٹرول کی خواہشمند ہے۔ یہ چیک ایئر لائنز کی بنیادی کمپنی ہے۔ چیک وزیر صنعت کا کہنا ہے کہ حکومت اسمارٹ ونگز کا مکمل کنٹرول سنبھال سکتی ہے۔ دوسری جانب اس کمپنی کے ڈائریکٹرز نے واضح کیا ہے کہ وہ کورونا وائرس بحران کے تناظر میں صرف مدد کے خواہاں ہیں اور کچھ نہیں چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ریاست سے اور مدد درکار ہے!
پرتگال کی قومی ہوائی کمپنی ٹٰی اے پی (TAP) اپنی بقا کے لیے حکومت سے مالی قرضہ چاہتی ہے۔ ملازمین مزید مالی مدد کے ساتھ حکومتی کنٹرول کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ پرتگالی وزیر اعظم ٹی اے پی کو قومیانے کا عندیہ دی چکے ہیں، ویسے اس کمپنی کے پچاس فیصد حصص پہلے ہی حکومت کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture alliance/M. Mainka
مدد کی بہت ضرورت نہیں
ناروے کی بجٹ ایئر لائن یا سستی ہوائی کمپنی نارویجیئن کو حکومت سے بلاواسطہ امداد ملی تو ہے لیکن یہ کمپنی اب تشکیل نو کے مشکل فیصلے کرنے میں مصروف ہے۔ ایسا امکان ہے کہ انجام کار یہ ہوائی کمپنی ریاستی انتظام میں چلنے والے بینک آف چائنا کے کنٹرول میں آ سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Mainka
سنگاپور ایئر لائنز غریب ہوتی ہوئی
رواں ماہ کے اوائل میں قیام کے اڑتالیس برسوں بعد سنگاپور ایئر لائنز نے پہلی مرتبہ بڑے خسارے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بیشتر ہوائی جہاز کھڑے ہیں۔ حکومت سنگاپور ایئر لائنز کے نصف سے زائد حصص کی مالک ہے۔
تصویر: Singapore Airlines
خراب حالات کی شروعات
خلیجی ممالک کی ریاستی ملکیت کی بڑی ایئر لائنز ایمیریٹس، قطر اور اتحاد کو دنیا بھر میں کئی حریف ہوائی کمپنیوں کا سامنا ہے۔ خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی ایئر لائنز کو حالیہ ایام میں داخلی اور بیرونی مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: Emirates Airline
حکومتی کنٹرول معمول کی بات
ہوائی کمپنیوں کے گروپ ایروفلوٹ میں روسی قومی ایئر لائنز ایروفلوٹ بھی شامل ہے۔ ایروفلوٹ کے اکاون فیصد سے زائد حصص کی مالک رشئین فیڈریشن ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہوائی کمپنیوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے اور ان میں حکومتی کنٹرول میں چلنے والی ہوائی کمپنیوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Medina
7 تصاویر1 | 7
تنخواہوں میں اضافے کا تنازعہ
جرمنی کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین 'ویردی‘ لفتھانزا کے زمینی عملے کے تقریباﹰ 20 ہزار کارکنوں کی تنخواہوں میں 9.5 فیصد یا ماہانہ کم از کم 350 یورو کے اضافے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ اس یونین کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ جزوقتی ملازمین کے لیے کم از کم فی گھنٹہ اجرت بڑھا کر 13 یورو کر دی جائے۔
ہڑتال کی کال کی وجہ یہ بنی کہ لفتھانزا کی انتظامیہ اپنے گراؤنڈ سٹاف کو اس فراط زر کے برابر بھی اجرتوں میں اضافہ پیش کرنے پر تیار نہیں، جس کی شرح گزشتہ ماہ 7.6 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
مستقبل میں ایندھن کے حوالے سے کم خرچ ہوائی جہازوں کی ضرورت ہو گی۔ اس شعبے کے ماہرین ان جہازوں کی ساخت اور ہیئت کے بارے میں سوچ و بچار میں مصروف ہیں۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
کم سے کم مزاحمت
ماہرین کے بقول ہوائی جہاز کا صحیح ڈیزائن ہی ایندھن کی بچت میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس نظریے کو ذہن میں رکھتے ہوئے جرمنی میں فضائی اور خلائی سفر کے ادارے نے ایک blended-wing-body بنائی ہے۔ اس میں کیبن اور پروں کو آپس میں ضم کر دیا گیا ہے۔ یہ ڈیزائن دوران پرواز کم سے کم مزاحمت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
تصویر: DLR
زہریلی گیسوں کے اخراج کے بغیر فضائی سفر
دنیا بھر میں فضائی آمد و رفت ضرر رساں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تین فیصد اخراج کا سبب بنتی ہے۔ یہ شرح یورپی کمیشن کے لیے بہت زیادہ ہے۔ یورپی کمیشن نے اس شرح میں 2050ء تک ایک تہائی تک کی کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ تصویر میں بجلی سے اڑنے والا یہ تصوراتی ہوائی جہاز اس ہدف کے حصول میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
طاقت ور برقی انجن
برقی طیاروں کو زمین سے فضا میں انتہائی طاقت ور انجنوں کی مدد سے ہی پہنچایا جا سکتا ہے۔ ان انجنوں میں کیبلز اور وائرنگ بجلی کی فراہمی میں کسی قسم کی رکاوٹ بھی پیدا نہیں کریں گے۔ لیکن اس کے لیے بیٹریوں کا وزن آج کل کے مقابلےمیں کم کرنا پڑے گا۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
جیٹ انجنوں کے بجائے بڑے بڑے پروپیلر
جدید طاقتور انجنوں کے مقابلے میں روٹرز یا گھومنے والے آلے زیادہ کارآمد ہیں۔ یہ بالکل ایک ٹربائن یا پروپیلر کی طرح کام کرتے ہیں۔ تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ اس طرح ایندھن کی مزید بیس فیصد تک بچت کی جا سکتی ہے۔ ان روٹرز کا قطر پانچ میٹر تک بنتا ہے۔
تصویر: DLR
کم خرچ لیکن پرشور
بہتر ہو گا کہ ان کھلے ہوئے روٹرز کو جہاز کے پچھلے حصے میں نصب کیا جائے۔ ایندھن کی بچت کے ساتھ ساتھ ایسے جہازوں میں سفر کرنا آج کل کے مقابلے میں قدرے سست رفتار ہو گا۔ یعنی عام ہوائی جہاز میں جو فاصلہ دو گھنٹوں میں طے کیا جا سکتا ہے ، اس کے لیے اس جہاز میں سوا دو گھنٹے لگیں گے۔ ایک نقصان یہ بھی ہے کہ یہ کھلے ہوئے روٹرز بہت زیادہ شور کا باعث بنیں گے۔
تصویر: DLR
ایندھن کی بچت کا بہترین ذریعہ
کفایت شعاری کے حوالے سے مستقبل کے مناسب ترین ہوائی جہاز کے پر بہت لمبے ہوں گے، یہ جسامت میں پتلا ہو گا اور اس میں بجلی سے چلنے والے انجن نصب ہوں گے۔ بیرتراں پیکارڈ اور آندرے بورشبرگ نے Solar-Impulse نامی ہوائی جہاز تخلیق کر کے یہ بات ثابت کر دی۔ تاہم یہ جہاز بہت کم وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ صرف ستر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔
تصویر: Reuters
بند ہو جانے والے وِنگ
پتلے اور طویل وِنگ ایرو ڈائنامکس کے لیے بہت کارآمد ہوتے ہیں۔ اس طرح ایندھن کی بھی بچت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شمسی توانائی سے چلنے والے اس جہاز کے پر 63 میٹر لمبے ہیں۔ تاہم ایسے ہوائی جہاز ہر ہوائی اڈے پر نہیں اتر سکتے۔ اس مسئلے کا حل ’بند ہو جانے والے وِنگ‘ ہیں۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
دو منزلہ ہوائی جہاز
’باکس وِنگ‘ نامی اس جہاز کے پچھلے حصے میں بڑے بڑے پروپیلر یا پنکھے نصب کیے گئے ہیں اور اس کے پر انتہائی پتلے ہیں۔ اس ڈبل ڈیکر یا دو منزلہ ہوائی جہاز کا ڈیزائن ایک تیر کی طرح کا ہے اس وجہ سے ایندھن کی بچت بھی ہوتی ہے اور یہ تیز رفتار پرواز بھی کر سکتا ہے۔ اس کے ونگ چھوٹے ہیں تاکہ یہ جہاز عام ہوائی اڈوں پر بھی اتر سکے۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
صرف ایندھن کی بچت ہی کافی نہیں
مصروف افراد کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ ڈی ایل آر کا اسپیس لائنر راکٹ انجنوں والا مسافر بردار ہوائی جہاز ہے۔ 2050ء میں اس جہاز میں سفر کرتے ہوئے یورپ سے آسٹریلیا صرف 90 منٹ میں پہنچنا ممکن ہو گا۔
تصویر: DLR
9 تصاویر1 | 9
ہوا بازی کی صنعت میں کارکنوں کی شدید کمی
جرمن ادارہ برائے معیشت (ڈی آئی ڈبلیو) کے اندازوں کے مطابق جرمنی میں ہوا بازی کی صنعت کو اس وقت سات ہزار سے زائد کارکنوں کی کمی کا سامنا ہے۔ کورونا کی عالمی وبا کے زمانے میں اس شعبے میں کام کرنے والے بہت سے کارکنوں نے فضائی سفر کی صنعت کو ہونے والے نقصان اور تقریباﹰ سبھی ایئر لائنز کی طرف سے عملے میں کٹوتیوں کی لہر کے بعد دیگر شعبوں میں ملازمتیں اختیار کر لی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ کورونا کی وبا کے بعد پہلی مرتبہ یورپ بھر میں سیاحتی سیزن تو عروج پر ہے مگر ہوائی اڈوں پر کارکنوں کی کمی تاحال پوری نہیں ہوئی۔ ان حالات میں کارکنوں کی ہر نئی ہڑتال یورپی ہوائی اڈوں پر صورت حال کو مزید پریشان کن ہی بنائے گی۔
م م / ش ر (اے ایف پی، ڈی پی اے)
الیکٹرک ہوائی جہاز پر سفر کب ممکن ہو گا؟
دنیا بھر میں الیکٹرک کاروں کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ لیکن الیکٹرک ہوائی جہازوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی الیکٹرک طیاروں میں طویل نہیں تو کم ازکم مختصر سفر کرنے کے قابل ضرور ہو جائیں گے۔
تصویر: Siemens AG
چھوٹے مگر آلودگی سے پاک جہاز
متبادل توانائی سے اڑنے والے طیارے ماحول کے لیے نقصان دہ CO2 یا دیگر ضرر رساں گیسیں خارج نہیں کرتے۔ یہ نہ تو نائٹروجن آکسائیڈ کے اخراج کا سبب ہیں اور نہ ہی دیگر ماحول دشمن خطرناک ذرات کے۔ یہ طیارے قدرے چھوٹے، کم وزن اور زیادہ ماحول دوست ہوتے ہیں۔ ’الفا الیکٹرو‘ سلووینیہ کے سٹارٹ اپ ’پیپسٹرل‘ کا ای جہاز ہے، جو مذکورہ بالا باتوں کی صداقت کرتا ہے۔ اس جہاز نے پہلی مرتبہ سن 2015 میں پہلی پرواز بھری تھی۔
تصویر: Pipistrel
نو سیٹوں والا مسافر بردار ای جہاز
زیادہ تر کمپنیاں اور سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ علاقائی سطح پر سفر کے لیے ایسے ای جہازوں کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ اسرائیلی اسٹارٹ اپ ’ایوی ایشن‘ کا منصوبہ ہے کہ نو سیٹوں والے ایک ای جہاز کو بطور مسافر طیارہ استعمال کیا جائے۔ تصویر میں نظر آنے والا پروٹو ٹائپ ای جہاز ’ایلیس‘ مکمل چارچ کرنے کے بعد ساڑھے چھ سو میل کا فاصلہ طے کر سکے گا۔ منصوبہ ہے کہ یہ جہاز سن دو ہزار انیس میں پہلی پرواز بھر لے۔
تصویر: Eviation
اڑنے والی ٹیکسی
جرمن کمپنی لیلیم کی ’فلائینگ ٹیکسی‘ نے پہلی مرتبہ2017 میں ٹیسٹ پرواز کی تھی۔ پانچ سیٹوں والا یہ ای جہاز عمودی لینڈنگ اور ٹیک آف کرنے کے قابل ہے۔ یہ جہاز ایک سو نوے میل کا سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس جہاز نے پیرس سے لندن تک کا سفر ایک گھنٹے میں مکمل کیا۔ مقصد ہے کہ ایک دن لوگ موبائل ایپ سے اس جہاز کو بلوا سکیں اور عام ٹیکسی کے کرائے کے برابر رقوم ادا کر کے اس اڑنے والی ٹیکسی میں سفر کر سکیں۔
تصویر: Lilium
پرانے اور نئے کا امتزاج
کچھ طیارہ ساز کمپنیاں یہ ہمت نہیں کر سکتی ہیں کہ وہ صرف الیکٹرک جہاز ہی بنانا شروع کر دیں۔ نومبر سن دو ہزار سترہ میں ایئر بس، رولس رائس اور سیمینز نے اعلان کیا تھا کہ وہ مشترکہ طور پر ایک کمرشل ہائبرڈ الیکٹرک پروٹو ٹائپ تیار کریں گے۔ e-Fan X نامی یہ ای جہاز گیس کے تین ٹربائین اور ایک الیکٹرک موٹر کا حامل ہو گا۔ توقع ہے کہ سن دو ہزار بیس تک یہ جہاز اپنی پہلی پرواز بھرنے کے قابل ہو جائے گا۔
تصویر: Airbus
ڈیڑھ سو سیٹوں والا ای جہاز
برطانوی بجٹ ایئر لائن ’ایزی جیٹ‘ کمپنی کو زیادہ ماحول دوست بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس برطانوی ایئر لائن نے اسی مقصد کی خاطر امریکی اسٹارٹ اپ ’رائٹ الیکٹرک‘ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایک مکمل ای جہاز بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس الیکٹرک جہاز میں 150 مسافروں کی گنجائش ہو گی۔ تاہم یہ ابھی معلوم نہیں کہ اس جہاز کا پہلا پروٹو ٹائپ کب منظر عام پر آ سکے گا۔
تصویر: Wright Electric
الیکٹرک فیوچر
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم آئندہ بیس برسوں بعد الیکٹرانک جہازوں میں سفر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ متعدد پروٹو ٹائپس کمپنیاں کوشش میں ہیں کہ یہ جہاز مکمل چارج کیے جانے کے بعد ایک ہی مرتبہ ایک سو پچپن تا چھ سو پچاس میل تک کا سفر کر سکیں۔ ٹیکنالوجی میں ترقی بہت تیزی سے ہو رہی ہے اور کسے معلوم کہ ہم ضرر ساں گیسوں سے پاک متبادل توانائی سے چلنے والے ای جہازوں میں جلد ہی سفر کرنے کے قابل ہو جائیں۔