1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لندن: جولیان اسانج کے خلاف عدالتی فیصلہ

24 فروری 2011

برطانیہ کی ایک عدالت نے وکی لیکس کے خالق جولیان اسانج کی وہ اپیل مسترد کر دی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کو جنسی زیادتی سے متعلق کیس میں ملک بدر کر کے سویڈن نہ بھیجا جائے۔

اسانج فیصلے کے خلاف اپیل کریں گےتصویر: AP
جولیان اسانج نے برطانوی عدالت سے اپیل کی تھی کہ ان کو سویڈن نہ بھیجا جائے، کیونکہ ان کو خدشہ ہے کہ جنسی زیادتی کے الزام کی آڑ میں ان کو امریکہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ امریکی حکومت اسانج پر ملکی راز وکی لیکس ویب سائٹ پر افشا کرنے کے الزام میں غداری تک کا مقدمہ چلا سکتی ہے۔

واضح رہے کہ اسانج نے وکی لیکس کے ذریعے امریکی سفارت خانوں کی خفیہ اور حساس دستاویزات شائع کر دی تھیں، جس کے بعد سے ان کو امریکی انتظامیہ کی برہمی کا سامنا ہے۔ ان سفارتی دستاویزات میں امریکی سفارت کاروں کی وہ خط و کتابت بھی شامل ہے، جس میں وہ مختلف ممالک اور ان کے رہنماؤں اور خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

ان دستاویزات کی وکی لیکس ویب سائٹ پر اشاعت کے بعد سے اسانج کو عالمی شہرت حاصل ہو چکی ہے۔

وکی لیکس ویب سائٹ نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا ہے

لندن کی ایک عدالت کے جج ہاورڈ رڈل نے جمعرات کے روز اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اسانج کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ سویڈن میں ان کے خلاف مقدمہ شفاف نہیں ہوگا۔ اسانج نے فیصلے کے فوراً بعد اس کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

اسانج کا موقف ہے کہ ان کے خلاف گزشتہ برس اگست میں دو خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے اور اس الزام کی نوعیت سیاسی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وکی لیکس پر امریکی دستاویزات شائع کرنے کی پاداش میں ہے۔

برطانوی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جولیان اسانج اور ان کے وکیل نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ عدالت نے ان کی یہ دلیل بھی رد کر دی کہ اسانج کی گرفتاری کے لیے جاری کیا جانے والا وارنٹ غیر قانونی ہے۔ جج ہاورڈ رڈل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ان کو یورپی اداروں پر پورا اعتماد ہے۔

اسانج اور ان کے وکیل نے عدالت کو گمراہ کیا، برطانوی جج کے ریمارکستصویر: picture-alliance/dpa

وکی لیکس کے خالق اسانج کو برطانیہ میں سات دسمبر 2010ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کو نو دن تک حراست میں رکھا گیا تاہم بعد میں وہ ضمانت پر رہا کردیے گئے تھے۔ تب سے اب تک وہ مشرقی لندن میں اپنے ایک دوست کے گھر میں مقیم ہیں جہاں ان کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔

وکی لیکس کو جدید میڈیا کے دور میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ حال ہی میں اسانج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تیونس میں صدر زین العابدین اور مصر میں حسنی مبارک کی حکومتوں کے خاتمے میں وکی لیکس نے بھی ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔

رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں