لندن میں مسجد پر حملے کے مجرم کو تینتالیس سال قید کی سزا
صائمہ حیدر
2 فروری 2018
ایک برطانوی عدالت نے لندن کے شمالی علاقے میں ایک مسجد کے نمازیوں پر وین چڑھانے والے شخص کو تینتالیس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ مجرم نے جون سن دو ہزار سترہ میں فنزبری میں ایک مسجد کے باہر نمازیوں پر وین چڑھا دی تھی۔
اشتہار
اڑتالیس سالہ ڈیرن اوسبورن کے اس حملے میں ایک برطانوی مسلمان شہری ہلاک اور نو زخمی ہوئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق اوسبورن میں بی بی سی کا ایک ڈرامہ دیکھنے کے بعد مسلمان مخالف جذبات پیدا ہو گئے تھے۔ اس ڈرامے میں پاکستانی نژاد برطانوی باشندوں کو بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث دکھایا گیا تھا۔ یہ ڈرامہ دیکھنے کے چند ہفتوں بعد ہی ڈیرن اوسبورن نے شمالی لندن کے علاقے فنز بری پارک میں واقع مسجد کے قریب راہگیروں پر گاڑی چڑھا دی تھی۔
عدالت نے ایک روز قبل ہی مجرم کو باقاعدہ طور پر قاتل قرار دے دیا تھا۔ استغاثہ کے مطابق مجرم اوسبورن انتہائی دائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہے اور مسلمانوں سے نفرت بھی کرتا ہے۔ مقدمے کی سماعت کرنے والی جج بوبی چیماگُرب نے سزا سناتے ہوئے کہا،’’ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا۔ آپ نے لوگوں کو مارنے کی کوشش کی۔‘‘
اس حملے کے بعد برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے مسجد کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ حملہ ایک مشتبہ دہشت گردانہ حملہ ہو سکتا ہے۔ مقامی مسلم آبادی نے اسے ایک ایسا جرم قرار دیا تھا، جس کا ارتکاب مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے کیا گیا۔
مسجد مبارک کی دل کو موہ لینے والی نقش و نگاری
دیر بالا میں واقع قدیم مسجد مبارک سیاحوں کے دلچسپی کا مرکز ہے۔ پاکستان میں مکمل طور پر لکڑی سے تیار کردہ یہ واحد مسجد تو نہیں ہے لیکن اپنی دلکش کندہ کاری اور بناوٹ کے لحاظ سے یہ مسجد ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
مقامی رہائشیوں کے مطابق اپردیر یا دیربالا کے علاقے تل میں واقع مسجدِ مبارک کے نام سے مشہور یہ مسجد قریب دو سو سال پرانی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
مسجد کی تیاری میں مقامی جنگلات کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ سینکڑوں ٹن وزنی لکڑی سے تعمیر شدہ یہ مسجد اپنی بناوٹ اور نقش و نگار کے لحاظ سے منفرد اور دلکش ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
تل شہر کے عقب میں واقع اس مسجد کی عمارت کے ساتھ ساتھ چار دیواری بھی لکڑی سے تعمیر کی گئی ہے جو کہ اس پہاڑی علاقے میں ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
مسجد مبارک کی دیواریں ایک طرف قیمتی لکڑی سے بنی ہیں تو دوسری طرف ان پر بنائے گئے خوبصورت ڈیزائن اور خطاطی کی وجہ سے ان کا حسن مزید دوبالا ہو جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
ماضی میں شدید بارشوں اور قدرتی آفات کی وجہ سے اس مسجد کو کافی نقصان بھی پہنچا تھا۔ تاہم نواب دیر کے دور میں اس مسجد کی مرمت اور حفاظت پر کافی توجہ دی گئی اور 1956ء میں باقاعدہ اس مسجد کے لئے رقم مختص کی گئی۔
تصویر: DW/D. Baber
تین منزلہ اس مسجد کو صرف اور صرف لکڑی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مسجد میں تبدیلیاں کی گئی۔ مختلف حصوں میں سمینٹ اور ریت کے استعمال سے اس مسجد کی خوبصورتی ماند پڑنے کا خدشہ ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
دیربالا ایک سرد علاقہ ہے۔ سردیوں کے موسم میں مسجد کا درجہ حرارت معتدل رکھنے کے لئے مسجد کے ہال میں بخارہ (انگیٹی) بنائی گئی ہے، جس میں ہر وقت لکڑی جلائی جاتی ہے اور یوں شدید سردی میں بھی مسجد گرم رہتی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
جہاں چاروں اطراف لکڑی کا خوبصورت کام نظر آتا ہے وہاں خوبصورت رنگوں کا بھی استعمال کرتے ہوئے دیواروں کو سجایا گیا ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
مسجد مبارک کی چھتیں ان بڑے بڑے ستونوں پر کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ ستون سیاحوں کو پرانے دور کے طرز تعمیر کی جھلک پیش کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
پچاس سالہ محمد واعف کے بقول گزشتہ دو برسوں سے وادی دیر کا علاقہ کُمراٹ سیاحوں کے دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ مسجد کُمراٹ اور تیمر گرہ کے عین درمیان واقع ہے اور سیاح اس مقام پر کچھ دیر کے لیے ضرور قیام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
مقامی رہائشیوں کے مطابق مسجد کی تعمیر اور اس کا نقشہ ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ مسجد میں ہوا اور روشنی کے لیے کیے گئے انتظامات ہر پہلو سے بہترین ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
حاجی کبیر خان کے مطابق وادی دیر کے جنگلات میں ہر قسم کی لکڑی پائی جاتی ہے۔ حالیہ صوبائی حکومت کی جانب سے درخت کاٹنے پر عائد پابندی کی وجہ سے دیر کے جنگلات میں خاطر خوا اضافہ ہوا ہے۔