پاکستانی صوبہ بلوچستان کے ضلع لورالائی میں ملکی انٹیلیجنس اداروں کی ایک مسلح کارروائی میں چار مبینہ خودکش حملہ آور مارے گئے ہیں۔ مارے جانے والے چاروں شدت پسندوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے بتایا گیا ہے۔
اشتہار
سکیورٹی حکام کے مطابق اس کارروائی کے دوران شدت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں چار سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہو گئے۔ لورالائی میں تعینات سینئر سکیورٹی اہلکار حیات الرحمٰن کے مطابق سرکاری فورسز نے طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف یہ کارروائی ناصر آباد کے علاقے میں کی۔
انہوں نے منگل چھبیس مارچ کو ڈی ڈبلیو کو بتایا، آج صبح سکیورٹی فورسز نے انٹیلیجنس اطلاعات پر لورالائی کے شمال مشرقی حصے میں یہ کارروائی کی۔ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ ایک کمپاؤنڈ میں خودکش حملہ آور موجود تھے، جو حملے کرنے کے لیے بالکل تیار تھے۔ اس پر سکیورٹی فورسز نے اس کمپاؤنڈ کو گھیرے میں لیا تو شدت پسندوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کا یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ فائرنگ کے تبادلے میں چاروں عسکریت پسند مارے گئے جبکہ چار سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہو گئے۔‘‘
حیات الرحمٰن نے بتایا کہ اس کمپاؤنڈ میں چھپے ہوئے شدت پسندوں نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ شدت پسند جس کمپاؤنڈ میں چھپے ہوئے تھے، اسے چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا گیا تھا۔ کافی دیر تک فائرنگ کے تبادلے کے بعد ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی گئی، اور پھر فائرنگ رک گئی۔ ان شدت پسند نے خود کو کمپاؤنڈ کے احاطے میں ہی دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ بعد میں اس کمپاؤنڈ کو تلاشی کے بعد کلیئر کر دیا گیا۔‘‘
کوئٹہ بم دھماکا: ہر طرف لاشیں، خون اور آنسو
پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے سول ہسپتال کے سامنے آج پیر آٹھ اگست کو ہونے والے ایک طاقت ور بم دھماکے میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور بیسیوں دیگر زخمی ہو گئے۔ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
دھماکے کے نتیجے وہاں موجود ؤر آنکھ پرنم نظر آئی جبکہ ہلاک ہونے والوں کے رشتہ دار اور دوست اپنے جاننے والوں کو دلاسہ دیتے اور صبر کرنے کی تلقین کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
شام اور عراق میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ وہ مقامی عسکری گروپ ہو سکتے ہیں، جو داعش کے ساتھ الحاق کا اعلان کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اس بم حملے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وکلاء اور صحافیوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی انتظامات فوری طور پر مزید بہتر بنائے جائیں۔
تصویر: Reuters/Naseer Ahmed
بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس دھماکے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ اس بم حملے میں مقامی وکلاء اور ان کے نمائندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
اس ہلاکت خیز بم حملے کے بعد صوبائی دارالحکومت کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے جبکہ صوبائی وزیر صحت نے اپنے ایک بیان میں ہلاک شدگان کی تعداد 93 بتائی ہے۔ اس تعداد کی دیگر ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
تصویر: Reuters/N. Ahmed
پولیس کے مطابق یہ بم دھماکا اس وقت کیا گیا جب سول ہسپتال کوئٹہ کے باہر بہت سے وکلاء جمع تھے، جن کے ایک سینئر ساتھی کو آج ہی قتل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
پاکستانی نجی ٹی وی اداروں کے مطابق اس دھماکے میں جو کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے، ان میں 25 کے قریب وکلاء بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں میڈیا کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
8 تصاویر1 | 8
ہلاک شدگان کی جسمانی باقیات بعد ازاں ایک مقامی ہسپتال منتقل کر دی گئیں۔ اس دھماکے سے چند قریبی عمارتیں بھی متاثر ہوئیں۔ ناصر آباد کے رہائشی اور اس کارروائی کے ایک عینی شاہد محمد یعقوب نے بتایا کہ سکیورٹی اہلکاروں کی ایک بھاری نفری صبح اس علاقے میں پہنچی اور ایک ایسے مکان کو گھیرے میں لے لیا گیا، جسے مقامی لوگ ایک مدرسے کے طور پر جانتے تھے۔ جب اندھا دھند فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا، تو مقامی لوگ بہت خوف زدہ ہو گئے تھے۔ قریبی عمارات کے رہائشی تو اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے گھروں میں جا چھپے تھے۔‘‘
پاکستانی فوجی کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق اس کارروائی میں ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کا تعلق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔
اس بیان کے مطابق حکام کو اس کمپاؤنڈ سے دھماکہ خیز مواد اور خودکش جیکٹوں کے علاوہ اسلحہ اور نیم فوجی لیویز کے ان چھ ارکان کے شناختی کارڈ بھی ملے، جنہیں صوبے کے ضلع زیارت میں سنجاوی نامی علاقے میں شدت پسندوں نے پانچ روز قبل ایک بڑے حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
6 تصاویر1 | 6
لورالائی میں کارروائی کے بعد کوئٹہ میں فائرنگ
لورالائی میں اس واقعے کے ایک گھنٹے بعد عسکریت پسندوں نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے ایک سینئر اہلکار پر فائرنگ کی۔ پولیس کے مطابق دوکانی بابا چوک کے قریب اس فائرنگ کے نتیجے میں یونیورسٹی کے شعبہ امتحانات کے سپرنٹنڈنٹ حسین شاہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران بلوچستان کے افغانستان کے ساتھ سرحد سے ملحقہ علاقوں میں شدت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل عسکریت پسندوں نے لورالائی ہی میں ایک فوجی چھاؤنی پر بھی حملہ کیا تھا، جس میں سکیورٹی دستوں نے ایک مسلح مقابلے میں ان شدت پسندوں کو ہلاک کر دینے کا دعویٰ کیا تھا۔
صوبے میں دہشت گردی کی نئی لہر
دفاعی امور کے معروف تجزیہ کار محمد عباس کے بقول بلوچستان میں حالیہ پرتشدد واقعات وہاں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا حصہ ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بلوچستان میں غیرملکی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے اورچین آئندہ چند دنوں میں وہاں مزید منصوبوں پر کام شروع کرنے والا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت حال ہی میں سی پیک کے منصوبے کے مغربی روٹ پر کام شروع کرنے کاعندیہ بھی دے چکی ہے۔ شدت پسندوں کے حملوں میں تیزی کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ صوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی جائے۔‘‘ محمد عباس کے بقول غیرملکی سرمایہ کاری سے قبل بلوچستان میں حالات کو سازگار بنانا بہت ضروری ہے، جس کے لیے مزید سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں پوست کی کاشت کے خلاف بڑا آپریشن
بلوچستان سے سالانہ اربوں روپے کی منشیات بیرون ملک اسمگل ہوتی ہے. فرنٹیئر کور ژوب ملیشیا کے اہلکاروں نے پاک افغان سرحد سے ملحقہ مسلم باغ اور قریبی علاقوں میں ایک آپریشن میں 380 ایکڑ پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کئی ٹن پوست کی خریداری
تیار شدہ پوست کٹائی کے بعد مخصوصی گوداموں میں ذخیرہ کی جاتی ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ یہ پوست ٹنوں کے حساب سے خریدتے ہیں اور بعد میں اسے ہیروئن کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے شورش زدہ مکران ڈویژن، تربت، مند، گوادر، چاغی اور برامچہ کےعلاقوں میں قائم فیکٹریوں میں دنیا کی اعلیٰ ترین ہیروئن تیار کی جاتی ہے، جو غیر قانونی راستوں سے بین الاقوامی مارکیٹ کو اسمگل کر دی جاتی ہے.
تصویر: DW
ایک منافع بخش کاروبار
زیرنظرتصویر ضلع لورالائی کے علاقے دکی کی ہے، جہاں اس آپریشن کے دوران 60 ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تباہ کی گئی۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں پوست کی کاشت لوگوں کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے اس لیے سخت پا بندی کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد ان علاقوں میں پوست کاشت کرتی ہے۔
تصویر: DW
ٹریکٹروں کا استعمال
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز نے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہمراہ مختلف علاقوں میں آپریشن کے دوران سینکڑوں ایکڑ زمیں پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی ہے ۔ اس کارروائی میں مقامی لوگوں نے بھی فورسز کی معاونت کی اور پوست تلف کرنے کے لیے ٹریکٹر بھی استعمال کئے گئے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
پوست کے نئے کھیت
لورالائی کے علاقے میختر میں پوست کی سب سے زیادہ فصل کاشت کی گئی تھی۔ یہاں 190 ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی گئی۔ منشیات کے اسمگلروں نے اس بارپوست کی کاشت کے لیے یہاں ایسے کھیتوں کا انتخاب کیا تھا جہاں اس سے قبل پوست کاشت نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: DW
زیادہ فصلیں غیر مقامی افراد کی
حکام کے مطابق پوست کی کاشت کے خلاف ہونے والے اس خصوصی آپریشن میں تلف کی گئی اکثر فصلیں غیر مقامی افراد کی ملکیت تھیں۔ پوست کاشت کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات بھی درج کر لیے گئے ہیں اور مقامی انتظامیہ کے اہلکار ان مقدمات میں نامزد افراد کی گرفتاری کے لیے کارروائی کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
دالبندین اور ملحقہ علاقے
سکیورٹی فورسز نے پوست کی کاشت تلف کرنے کے لیے ضلع چاغی، دالبندین اور ملحقہ علاقوں میں بھی کارروائی کی، جہاں اب تک 90 ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی جا چکی ہے۔ یہ پوست مقامی آبادی سے کافی دورپہاڑوں کے دامن میں کاشت کی گئی تھی۔ اس کاروبار میں ملوث افراد ایک ایکڑ زمین پر پوست کاشت کرنے کا دو لاکھ روپے تک معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ اسمگلروں نے یہ زمین پوست کی کاشت کے لیے لیز پر حاصل کی تھی۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
ڈرگ مافیا ایک مدت سے سرگرم
پوست کی فصل کے خلاف جاری اس آپریشن میں سکیورٹی فورسز نے دکی کے علاقے میں 65 ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی۔ ڈرگ مافیا کے لوگ بڑے پیمانے پر یہاں ماضی میں بھی پوست کی کاشت کرتے رہے ہیں اور اس سے قبل بھی یہاں سینکڑوں ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی جا چکی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
تیار فصلوں کی بھی تلفی
بلوچستان کے پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں اس کارروائی کے دوران پوست کی تازہ اگائی ہوئی فصلوں کے ساتھ ساتھ ایسی فصلیں بھی تباہ کی گئیں جو تیار ہو چکی تھیں۔ حکام کے مطابق کٹائی کے بعد اسمگلر ان فصلوں سے حاصل ہونے والی پوست ہیروئن کی فیکٹریوں میں سپلائی کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
تصویر: DW
1999ء کا پاکستان پوست سے پاک قرار پایا تھا
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بین الاقوامی سطح پر انیس سو ننانوے میں پاکستان کو پوست سے پاک علاقہ قرار دے دیا گیا تھا لیکن اب پھر اس کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجوہات ماہرین زیادہ آمدنی بتاتے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ، ژوب اور منزکئی کے علاقے میں کارروائی کے دوران اسمگلروں کے دو ٹھکانے تباہ بھی کیے گئے اور بڑی مقدار میں برآمد کی گئی پختہ پوست بعد میں منزکئی کے ایک میدان میں نذر اتش کر دی گئی۔
تصویر: DW
پوست کی کاشت اور عسکریت پسندی
مکران ڈویژن میں ہیروئن کے بعض اسمگلرز منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ عسکریت پسندوں کو بھی فراہم کرتے ہیں، جس سے وہ اپنے لیے اسلحہ اور سامان خریدتے ہیں۔ اس لیے پوست کے خلاف کی جانے والی اس حالیہ کارروائی کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اسمگلروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطوں کو ختم کیا جائے.
تصویر: DW
منشیات کی کاشت اور خرید و فروخت کرنے والے
پوست کی کاشت کےخلاف ہونے والی اس کارروائی کے دوران مختلف علاقوں سے 45 ایسے افراد بھی گرفتار کیے گئے ہیں جو کہ پوست کی فصل کی کاشت اور اس کی خرید و فروخت میں ملوث تھے۔ ان افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال بلوچستان اسمبلی میں پوست کی کاشت کے خلاف منظور کی گئی ایک متفقہ قرارداد میں قلعہ عبداللہ اور دیگر علاقوں میں پوست کی فصلیں تلف کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: DW
بلوچستان، ڈہائی لاکھ افراد منشیات کے عادی
بلوچستان میں پوست کی کاشت میں اضافے کے ساتھ ساتھ منشیات کےعادی افراد کی تعداد میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج کل بلوچستان میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد منشیات استعمال کرتے ہیں، جن میں اسّی ہزار افراد ہیروئن کےعادی ہیں۔
تصویر: DW
12 تصاویر1 | 12
فوج کے دعووں اور زمینی حقائق میں خلیج
ادھر صوبے میں سیاست پر قریبی نظر رکھنے والے تجزیہ کار فرمان رحمان کے مطابق دہشت گردی کی یہ حالیہ لہر بلوچستان میں ترقیاتی عمل کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہو ں نے کہا، ’’اس وقت بلوچستان کے حالات میں جو غیرمعمولی تبدیلی سامنے آ رہی ہے، وہ کئی حوالوں سے بہت اہم ہے۔ چند ماہ قبل یہ دعوے سامنے آئے تھے کہ صوبے میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور آپریشن ردالفساد کے تحت شدت پسندوں کی ’آپریشنل اہلیت‘ ختم کر دی گئی ہے۔ لیکن ان تازہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید اس حوالے سے بعض حکومتی دعوے زمینی حقائق کے برعکس تھے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود شدت پسند حساس علاقوں میں داخل ہونے میں کامیاب کس طرح ہو جاتے ہیں؟‘‘ انہوں نے مزید بتایا، ’’بلوچستان میں استحکام کے بغیر پاکستان کبھی مستحکم نہیں ہوسکتا۔ حکمران بظاہر یہ بات سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ وقت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ حکمران بلوچستان میں امن کی بحالی کے لیے زمینی حقائق پر پوری توجہ دیں۔‘‘
بلوچستان میں رواں ماہ کویت اور سعودی عرب کے اداروں نے بھی سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان بھی چند دنوں میں ایک دورے پر کوئٹہ پہنچیں گے، جہاں وہ سی پیک منصوبے کے مغربی روٹ پرکام کا افتتاح کریں گے۔
پاکستانی شیعہ کمیونٹی کا ملک گیر احتجاج اور دھرنے
بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی ایک بسں پر حملے اور ہلاکتوں کے خلاف کوئٹہ، کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج جاری ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کراچی میں ایک شیعہ مسلمان لڑکی منگل کے روز ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں ہونے والی اس فرقہ ورانہ کارروائی میں بڑی تعداد میں شیعہ زائرین سمیت کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ان مظاہروں میں خواتین، مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
تصویر: Reuters
شیعہ کمیونٹی کی طرف سے لاہور میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ شرکاء کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images
کوئٹہ میں علمدار روڈ کے قریب ٹائر جلاتے ہوئے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
تصویر: /AFP/Getty Images
ہزارہ شیعہ کیمونٹی کے سینکڑوں افراد نے مستونگ مں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دھرنا دے رکھا ہے۔ اس احتجاج میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو پہلے بھی متعدد مرتبہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسی طرح کے احتجاج کے نتیجے میں صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
مجلس وحد ت المسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی کے بقول، ’’ہم اپنا دھرنا جاری رکھیں گے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کا نمائندہ آئے اور اپنے ساتھ ٹارگٹڈ آپریشن پر عمل درآمد کے حوالے سے ضمانت پیش کرے، تب ہی ہم دھرنا ختم کر کے شہداء کی تدفین کریں گے۔‘‘
تصویر: G. Kakar
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بدھ کو علمدار روڈ کا دورہ کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے دھرنے میں شامل اراکین سے دھرنا ختم کرنے کو کہا تاہم مظاہرین نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیعہ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ کوئٹہ کی مختلف امام بارگاہوں کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔