’لوگوں کا کام ہے کہنا‘ سرف کا نیا اشتہار تنازعے کا باعث
25 جون 2019
پاکستان میں بین الاقوامی کمپنی کے سرف کی ایک اشتہاری مہم پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اس اشتہار میں پدرانہ معاشرے میں خواتین سے جڑی دقیانوسی روایات کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ناقدین کے بقول یہ اشتہار اسلام کی توہین کے مترادف ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں امریکی کمپنی پراکٹل اینڈ گیمبل کی پراڈکٹ ایریل سوپ کے ایک نئے اشتہار پر کئی حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ کپڑے دھونے کے لیے استعمال ہونے والے اس ڈیٹرجنٹ پاؤڈر کے اس اشتہار میں خواتین کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ قدامت پسند اقدار اور دباؤ سے نکل کر اپنا کیریئر بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔
پاکستان کے پدرانہ معاشرے میں اس اشتہاری مہم پر کئی حلقوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ یہ دراصل اسلام کی توہین کے مترادف ہے۔ اس اشتہار میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف خواتین سوکھنے کے لیے تار پر لٹکے ان کپڑوں کا بتاتی ہیں، جن پر مختلف دقیانوسی جملے درج ہیں، مثال کے طور پر 'تم ایک لڑکی ہو‘، 'لوگ کیا کہیں گے‘، 'چار دیواری میں رہو‘، 'پڑھ لیا؟ اب گھر سنبھالو‘۔
اس اشتہار میں پاکستانی خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کی اسٹار بسمہ معروف کہتی ہیں کہ 'یہ صرف جملے نہیں بلکہ داغ ہیں۔ پھر تمام خواتین یک زبان ہو کر کہتی ہیں کہ 'پر یہ داغ ہمیں کیا روکیں گے‘۔ بظاہر یہ واشنگ پاؤڈر بیچنے کا ایک اشتہار ہے، جس میں کپڑوں پر لگے داغوں کو دھونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم اس میں خواتین کی آزادی کے تناظر میں ایک پیغام واضح ہے۔
اس اشتہار پر سوشل میڈیا میں ایک بحث جاری ہے جبکہ دیکھتے ہی دیکھتے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر BoycottAriel کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا ہے۔ ایک صارف بنت سلیمان نے لکھا کہ 'یہ اشتہار اسلام کا مذاق اڑانے کا ایک مشن ہے‘۔
ایک اور صارف راجہ معظم نے اضافہ کیا کہ 'برائے مہربانی ان لبرلز کے خلاف ایکشن لیا جائے، جو پاکستان میں لبرلائزیشن پھیلانا چاہتے ہیں‘۔ دیگر کئی نے مطالبہ کیا ہے کہ متعلقہ حکام اس اشتہار پر پابندی عائد کریں۔
ایریل کمپنی نے فوری طور پر ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان میں خواتین ایک طویل عرصے سے اپنے حقوق کی خاطر آواز بلند کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے متعدد کارکنان کے مطابق جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ پاکستان میں فعال بین الاقوامی کمپنیوں کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ رواں سال کے آغاز پر کار شیئرنگ ایپ 'کریم‘ کے ایک اشتہار کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
سن انیس سو سولہ میں کیو موبائل کا ایک اشتہار بھی قدامت پسندوں کےعتاب کا باعث بنا تھا، جس میں ایک کرکٹر خاتون اپنے والد کی مخالفت کے باوجود اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کی خاطر کوشش جاری رکھتی ہے۔ اس اشتہار کو پاکستانی اقدار کے خلاف ایک سازش قرار دیا گیا تھا۔
ع ب / ا ا / خبر رساں ادارے
دس اشتہارات، سیاسی رنگ کی آمیزش کے ساتھ
مشہور برانڈ نائیکی نے حال ہی میں ایک اشتہاری مہم چلائی تھی جس میں الفاظ کے استعمال سے اس میں سیاسی رنگ پیدا کیا گیا تھا۔ اس سے قبل بھی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے اشتہارات کو متنازعہ طور سے پیش کیا ہے۔
’’اپنے موقف پر ڈٹے رہو چاہے اس کے لیے سب کچھ قربان کرنا پڑے۔‘‘ نائیکی کی جانب سے ’جسٹ ڈو اِٹ‘ موٹو کے تحت چلائی جانے والی ایک اشتہاری مہم میں فٹبال کے سابق امریکی کھلاڑی کولن کائپرنک کو لیا گیا ہے۔ کولن نے سن 2016 میں این ایل ایف فٹ بال گیمز کے آغاز پر ملکی ترانہ بجائے جانے کے وقت کھڑے رہنے کے بجائے نسل پرستی کے خلاف ایک گھٹنے پر جھک کر احتجاج کیا تھا۔
تصویر: Nike
سیاسی اور سماجی معاملات پر بات
۔معروف برانڈ بینیٹن اپنے اشتعال انگیز اشتہارات کے لیے مشہور ہے۔ ہم جنس پرست ایکٹیوسٹ اور ایڈز سے متاثر ڈیوڈ کربی کو سن 1992 میں ایک اشتہار میں شامل کیا گیا تھا۔ متعدد سر گرم کارکنوں کا موقف تھا کہ اس اشتہار کے ذریعے ایک انسان کی تکلیف کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
انسانی ابتلاؤں کے رنگ
بینیٹن کے کپڑوں پر نوے کے عشرے میں ایک خونی مافیا کے ہاتھوں انسانی ہلاکتوں سے لے کر سن 2018 میں مہاجرین کی مشکلات تک کی عکاسی پر اکثر ناقدین یہ سوال کرتے ہیں کہ ایسی تصاویر کے ذریعے اس برانڈ کے کپڑے کیوں فروخت ہونے چاہییں۔ تاہم ایسی تنقید کے باوجود یہ کمپنی اپنی یہ حکمت عملی جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/ROPI
مذہبی بوسہ
ایک اور اشتہاری مہم میں بینیٹن کمپنی نے فوٹو شاپ پر انحصار زیادہ رکھا۔ سن 2012 میں نفرت کے خلاف ایک مہم میں متعدد عالمی رہنماؤں کو اپنے مخالفین کا بوسہ لیتے ہوئے دکھایا گیا۔
’دائیں بازو کے نظریات والا پڑوسی ہے تو گھر بدل لیں‘
جرمنی میں کرائے پر کاریں دینے والی کمپنی ’سِکسٹ‘ نے اپنے اشتہار میں دائیں بازو اور مہاجر و اسلام مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے متنازعہ نائب رہنما الیگزانڈر گاؤلنڈ کی تصویر دکھائی ہے۔ تصویر کا عنوان ہے، ’’ہر اس شخص کے لیے جس کے پڑوس میں ایک گاؤلنڈ ہے۔‘‘ جواب میں اے ایف ڈی نے بھی ایک نسبتاﹰ کم درجے کی کمپنی کی حمایتی مہم میں کہا، ’’ہر اس شخص کے لیے جو سکسٹ کے قریب رہتا ہے۔‘‘
تصویر: Sixt/Quelle: Twitter
اذیتی کیمپ میں ماڈلنگ
آسٹریلیا میں قائم ’ویلی آئی ویئر‘ کے سن گلاسز کے ایک اشتہار کا مقصد لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرنا تو نہیں تھا لیکن ہوا یہ کہ یہ اشتہار کروشیا میں قائم ایک اذیتی کیمپ میں بنایا گیا جہاں قریب اسّی ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس ایڈ کے منظر عام آنے پر بہت غم وغصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ I. Kralj/PIXSELL
سیاہ فام مرد ایشیائی باشندے میں تبدیل
شنگھائی لائی شنگ نامی ایک کاسمیٹکس کمپنی نے سن 2016 میں ایک اشتہار بنایا تھا جس میں ایک سیاہ فام شخص کی ’دھلائی‘ کے بعد اسے صاف رنگت کا ایشیائی باشندہ دکھایا گیا۔ اس کمپنی پر نسل پرستی کا الزام عائد کیا تھا جس پر اسے معافی مانگتے ہوئے یہ اشتہار واپس لینا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سیاہ خاتون بھی سفید فام بن گئیں
اسی نوعیت کا معاملہ سن 2017 میں بھی سامنے آیا جب ’ڈوو‘ نامی کمپنی نے ایک سیاہ فام خاتون کو اپنی پراڈکٹ کے استعمال کے بعد سفید رنگت کی عورت میں تبدیل ہوتے دکھایا تھا۔ اس کمپنی کو بھی معذرت کرتے ہوئے اشتہار کی ویڈیو تلف کرنا پڑی تھی۔