کورونا کی وبا میں خود کشی کے رجحان کا تدارک کیسے؟ ’’ہم تاحال ایک دوسرے کے لیے موجود تو ہیں۔‘‘ خود کشی کے تدارک کے عالمی دن کے موقع پر ماہرین کہتے ہیں کہ سماجی فاصلوں کا مطلب معاشرتی طور پر کٹ کر رہ جانا نہیں ہونا چاہیے۔
اشتہار
دنیا بھر کے ایسے انسانوں کے لیے، جنہیں پہلے ہی سے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا تھا، کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس کی عالمی وبا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئی ہے۔
خود کشی کی روک تھام کے جمعرات دس ستمبر کو منائے جانے والے عالمی دن کی مناسبت سے ماہرین کی طرف سے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سماجی سطح پر فاصلے رکھنا ناگزیر تو ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عام لوگ معاشرتی طور پر ایک دوسرے سے بالکل کٹ کر رہ جائیں۔
مہلک عالمی وبا کے اثرات
نفسیاتی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا کو دنیا بھر میں پھیلے کئی ماہ ہو چکے ہیں اور آج بھی یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اس وبا پر کب تک قابو پایا جا سکے گا۔ ایسے میں عام انسانوں کا سماجی طور پر ایک دوسرے کے پاس نہیں تو ایک دوسرے کے لیے موجود ہونا اس وجہ سے بہت اہم ہے کہ بے شمار انسانوں کو موجودہ حالات میں خود کشی سے جڑے خیالات اور ذہنی دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
جرمنی میں خود کشی کی روک تھام کے قومی پروگرام کی شریک سربراہ ڈاکٹر باربرا شنائڈر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''اہم ترین بات یہ ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں، عام لوگوں کو، ہم سب کو، یہ احساس رہنا ہی چاہیے کہ ہم سب آج بھی ایک دوسرے کے لیے موجود ہیں۔‘‘
دس ستمبر، خود کشی کی روک تھام کا عالمی دن
دس ستمبر کو ہر سال دنیا بھر میں خود کشی کی روک تھام کا دن WSPD منایا جاتا ہے، جس کا اہتمام خود کشی کے تدارک کی عالمی تنظیم IASP کرتی ہے۔ یہ تنظیم یہ عالمی دن عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے مناتی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان انسانوں کی موت کا سوگ منانا ہوتا ہے، جو آج تک خود کشی کر چکے ہیں۔
لیکن یہ دن منانے کا اس سے بھی زیادہ اہم مقصد بین الاقوامی سطح پر خود کشی کے رجحان کی روک تھام بھی ہے، جس دوران عالمی سطح پر یہ ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ عام لوگوں کو سماجی سطح پر ہمیشہ ایک دوسرے کا دھیان بھی رکھنا چاہیے۔
جسمانی نہیں تو جذباتی طور پر سہارا
جرمنی کی ڈاکٹر باربرا شنائڈر کہتی ہیں، ''کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں ہم سب جانتے ہیں کہ ہم اپنے پیاروں کے پاس جا کر انہیں نہ مل سکتے ہیں نہ انہیں گلے لگا سکتے ہیں۔ لیکن اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے انسانوں کے لیے یہ احساس زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ جسمانی طور پر نہیں تو ان کے عزیز، اقرباء اور دوست کم از کم جذباتی طور پر اور ضرورت کے لمحے میں اپنی محبت کے ساتھ ہمیشہ ان کے ہمراہ ہوتے ہی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر شنائڈر کے بقول، ''ہم سب کے لیے یہ احساس بہت زیادہ ہمت اور حوصلہ دینے والا ہوتا ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کے لیے اہم ہیں اور دوسرے ہماری فکر کرتے ہیں۔‘‘
ہر سال آٹھ لاکھ خود کشیاں
مسلمہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباﹰ آٹھ لاکھ انسان خود کشی کر لیتے ہیں۔ ان بہت ناامید ہو جانے والے انسانوں میں ایسے خواتین و حضرات بھی ہوتے ہیں جو بظاہر بڑے بڑے خاندانوں کے رکن ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ بھی شدید حد تک تنہائی اور ناامیدی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی جان لے لینے والے ایسے انسانوں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو اکیلے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
وبائی صورت حال میں زندگی گھر کی بالکونی تک محدود
نئےکورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندیاں عائد ہیں۔ ایسے میں لوگوں کی زندگی گھر کی چار دیواری سے بالکونی تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
اسٹیڈیم؟ ضرورت نہیں!
کروشیا کے موسیقار داوور کرمپوٹک کو اب ہزاروں تماشائیوں کے سامنے پرفارم کرنے کے لیے اسٹیڈیم جانےکی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ اپنے گھر کی بالکونی سے ہی سکسوفون بجا کر لوگوں کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران داوور یہاں روز باجا بجاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL/N. Pavletic
جرمنی میں میوزکل فلیش موبس
کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران گھروں کی بالکونی سے میوزکل کانسرٹس کے سلسلے کا آغاز اٹلی سے ہوا تھا اور پھر آہستہ آہستہ دیگر ممالک میں بھی موسیقاروں نے اپنے گھروں سے ہی فن کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ اس تصویر میں جرمن شہر فرائبرگ میں ’بارک آرکسٹرا‘ بیتھوفن کی مشہور دھن ‘Ode an Die Freude’ پیش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger
گھر میں بالکونی نہیں تو کھڑکی ہی صحیح
بیلجیم کی حکومت نے بھی عوام کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تاکیدکر رکھی ہے۔ ایسے میں وہ لوگ کیا کریں جن کے گھر میں بالکونی نہیں؟ وہ لوگ اپنے گھر کی کھڑکی کی چوکھٹ پر بیٹھ کر تازہ ہوا اور باہر کے مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Geron
بحری جہاز کی بالکونی
’اسپیکٹرم آف دی سی‘ نامی یہ کروز شپ ایک سال قبل جرمنی سے روانہ ہوا تھا، اب یہ آسٹریلیا پہنچ چکا ہے۔ تاہم کورونا وائرس کے خطرے کی وجہ سے یہ جہاز لنگر انداز نہیں کیا جا رہا۔ آن بورڈ مسافر اور عملہ جہاز کی بالکونی سے ہی سڈنی کی بندرگاہ کا نظارہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/C. Spencer
بڑی بالکونی، بڑا کام
یہ کسی ہالی ووڈ فلم کا سین نہیں بلکہ کھٹمنڈو میں ایک خاتون چھت پر کپڑے سکھا رہی ہے۔ نیپالی دارالحکومت میں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے دو ہفتے سے لاک ڈاؤن نافذ ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/P. Ranabhat
بالکونی پر حجامت
لبنان کے جنوبی علاقے حولا میں گھر کی بالکونی پر کھلی فضا میں مقامی حجام لوگوں کی حجامت کر رہے ہیں۔ خبردار، چہرے پر حفاظتی ماسک کا استعمال لازمی ہونا چاہیے!
تصویر: Reuters/A. Taher
سبزی خریدنا ہے، کوئی مسئلہ نہیں!
ان غیر معمولی حالات میں روزمرہ کی زندگی میں نت نئے طریقہ آزمائے جا رہے ہیں، لیکن اوپر گیلری سے تھیلا نیچے پھینک کر سبزی خریدنے سے تو آپ سب بخوب ہی واقف ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A.-C. Poujoulat
بالکونی میں ورزش کرنا
فرانسیسی شہر بورڈو میں سباستیان مانکو ورزش سکھاتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران معمر افراد بھی تندرست رہ سکیں، اس لیے وہ چوراہے پر کھڑے ہو کر سب کو ورزش کرواتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Tucat
ایتھلیٹس بھی بالکونی میں ٹریننگ پر مجبور
جرمن ایتھلیٹ ہانس پیٹر نے ریو ڈی جنیرو میں منعقدہ پیرا اولمپکس میں دو سونے کے تمغے جیتے تھے۔ چھبیس برس قبل ایک حادثے میں وہ معذور ہو گئے تھے۔ کورونا کی وجہ سے وہ بھی اپنے گھر کی بالکون میں ہی تین پہیوں والی سائیکل پر ٹریننگ کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Fassbender
روف ٹاپ سوئمنگ پول
کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے قرنطینہ کی اس سے بہتر جگہ نہیں ہو سکتی، لیکن یہ عیش و عشرت ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یورپی ملک موناکو میں بالکونی کے ساتھ سوئمنگ پول والے ایک گھر کی قیمت تقریباﹰ تین ملین یورو تک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Francois Ottonello
کورونا میں مزاح
کورونا وائرس کے خطرے سے تمام لوگ گھروں کے اندر موجود ہیں لیکن موسم بہار میں دھوپ سینکنے کے لیے یہ ڈھانچہ گھر کی بالکونی میں کھڑا ہے۔ جرمن شہر فرینکفرٹ آن دیر اودر میں ایک شہری کی اس تخلیق نے وبائی صورت حال میں بھی مزاح تلاش کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
11 تصاویر1 | 11
اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ انسانی خود کشی کا ہر واقعہ خود کشی کرنے والے انسان سے خاندانی، سماجی اور روزگار کی وجہ سے تعلق رکھنے والے اوسطاﹰ 135 دیگر افراد کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس طرح خود کشی کا عمل ہر سال مجموعی طور پر 108 ملین انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔
مختلف ممالک میں خود کشی کی شرح مختلف
موت کے لیے گھر کا انتخاب
جاپان میں شدید بیمار افراد کی اکثریت ہسپتال ہی میں مرنا پسند کرتی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جو ہسپتال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے گھر میں مکمل تنہائی میں ہی موت سے جا ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
کتے کے ساتھ
جب میتسُورو نینُوما کو معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے بس موت کے منہ میں جانے والے ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کی بجائے گھر میں مرنا پسند کیا۔ اس طرح انہیں اپنے پوتے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور رِن نامی اپنے کتے کے ساتھ بھی۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
اپنے گھر کی چار دیواری
69 سالہ میتسُورو کے سونے کے کمرے کی یہ چار دیواری رنگوں سے روشن ہے، یہ رنگ انہوں نے اپنے پوتے کے ساتھ بکھیرے۔ ایک فزیکل تھراپسٹ ان کے معائنے کو آتا ہے، مساج کرتا اور ان کی ٹانگوں کو جنبش دیتا ہے۔ وہ کئی ماہ سے بسترِ مرگ پر ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتال میں ڈیمینشیا مزید بگڑ گیا
یاسودو تویوکو ٹوکیو میں اپنی بیٹی کے ہاں رہ رہے ہیں۔ اس 95 سالہ مریضہ کو معدے کے سرطان اور ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان کی بیٹی ہی ان کا خیال رکھتی ہے۔ یاسوڈو کو ان کی بیٹی ہسپتال سے گھر اس لیے لے آئیں، کیوں کہ انہیں لگا کہ ان کی والدہ ہسپتال میں کم زور ہو گئیں تھیں اور ان کا ڈیمینشیا کا مرض بگڑ گیا تھا۔ جاپان میں مریضوں کی گھر میں دیکھ بھال ایک غیرعمومی بات ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
طویل انتظار
ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اپنی زندگی کے آخری چند ہفتے گھر پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ کاتسو سایتو کو جب معلوم ہوا کہ انہیں لیکیومیا لاحق ہے، تو انہوں نے قریب المرگ مریضوں کے لیے مخصوص قیام گاہ (ہوسپیس) کا انتخاب کیا، مگر وہاں جگہ ملنے میں انہیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ انہیں جب وہاں منتقل کیا گیا، تو وہ فقط دو ہی روز بعد انتقال کر گئے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں میں جگہ کا فقدان
ہسپتالوں اور قریب المرگ مریضوں کی قیام گاہوں (ہوسپیس) میں بستروں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جاپان میں طویل العمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس وقت جاپان میں ہر چار میں سے ایک شخص 65 برس سے زائد عمر کا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سن 2030 میں جاپانی ہسپتالوں کو قریب نصف ملین بستروں کی کمی کا سامنا ہو گا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں کے مہنگے کمرے
یاشوہیرو ساتو پیپھڑوں کے سرطان کے باعث انتقال کے قریب ہیں۔ وہ ہسپتال کے ایک انفرادی کمرے میں رہنا چاہتے ہیں مگر چوں کہ ریٹائرڈ افراد کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ہیلتھ انشورنس انفرادی کمروں کے لیے پیسے نہیں دیتی، وہ ٹوکیو میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
چلتے ڈاکٹر
فزیشن یو یاسوئی (دائیں) نے ایک موبائل کلینک قائم کر رکھا ہے، جو قریب المرگ افراد کو ان کے گھروں میں نگہداشت فراہم کرتا ہے۔ 2013ء میں قائم ہونے والا یہ کلینک اب تک پانچ سو افراد کو گھروں میں فوت ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کر چکا ہے۔ یو یاسوئی کے مطابق زندگی کے آخری دنوں میں طبی نگہداشت بہت کارگر ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
موت تنہائی میں
یاسوئی کے چند مریض اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے خاندان یا دوست انہیں باقاعدگی سے دیکھنے آتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں کوئی ڈاکٹر یا نگہداشت کرنے والوں کے علاوہ کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ ٹوکیو میں یاسوہیرو کا کوئی نہیں۔ وہ ٹوکیو کے اس فلیٹ میں مکمل طور پر تنہا ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
شاید بعد کی زندگی بہتر ہو
یاسوہیرو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے کیوں کہ ’انہیں موت کے بعد کی بہتر زندگی درکار ہے‘۔ 13 ستمبر کو یوسوہیرو کی سانس بند ہو گئی تھی اور اس وقت ان کے پاس ان کے فلیٹ میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
9 تصاویر1 | 9
بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے شہریوں میں خود کشی کے رجحان کی شرح بھی مختلف ہے۔ جرمنی میں گزشتہ چند عشروں کے دوران خود کشی کی وجہ سے انسانی اموات میں کافی کمی ہوئی ہے۔
اس کے باوجود جرمنی میں آج بھی خود کشی کرنے والوں کی سالانہ تعداد سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں اور منشیات کے استعمال کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
جرمنی میں اس بارے میں تازہ ترین لیکن حتمی سالانہ اعداد و شمار 2018ء کے ہیں۔ دو سال قبل یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں 9,300 افراد نے خود کشی کی تھی۔
آن لائن مدد
جرمنی سمیت مغربی دنیا کے درجنوں ممالک میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایسی آن لائن مدد کے امکانات گزشتہ کئی عشروں سے دستیاب ہیں، جن کے ذریعے خود کشی کرنے کے بارے میں سوچنے والے شہری فوری طور پر مدد اور رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی خود کشی کی صرف کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ عمل ہمیشہ کئی مختلف عوامل کے اثرات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر باربرا شنائڈر کے مطابق خود کشی کے خطرے سے دوچار افراد کو باقی تمام انسانوں کی طرح ایک بات کا ہمیشہ علم بھی ہونا چاہیے اور یقین بھی: ''رابطہ کیجیے، بات کیجیے، مدد ممکن ہے۔‘‘
ریبیکا شٹاؤڈن مائر (م م / ع ا)
بچوں میں ڈپریشن کی وجوہات
ڈپریشن کی وجہ سے بچوں اور نوعمر افراد میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کو ڈپریشن سے بچانے کے لیے آپ کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو بچوں میں ڈپریشن کی وجہ بنتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/Nicole Effinger
کارکردگی میں بہتری کے لیے دباؤ
موجودہ طرز زندگی میں اسکولوں، کھیل کود کے میدانوں اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بچوں پر یہ مسلسل دباؤ رہتا ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ گھر واپس آ کر بھی انہیں ڈھیروں ہوم ورک کرنا ہوتا ہے۔ یہ سب چیزیں بچوں پر جسمانی اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel
خاندانی جھگڑے اور انتشار
کسی بھی خاندان میں والدین کے درمیان مسلسل ہونے والے جھگڑوں یا طلاق کا بچوں پر انتہائی بُرا اثر پڑتا ہے۔ ’جرنل آف میرج اینڈ فیملی‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ٹوٹے خاندانوں کے بچوں کو ڈپریشن کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
تصویر: goodluz - Fotolia
ناکافی کھیل کود
بچوں کی جسمانی نشو ونما میں کھیل کود کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ کھیل کود اور جسمانی حرکت سے دماغ چوکنا بھی رہتا ہے اور اس کی افزائش بھی ہوتی ہے۔ اس سے بچوں کو مسائل حل کرنے اور اپنی صلاحیت بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ بچوں میں ذہنی بیماریوں کے ماہر پیٹر گرے کہتے ہیں کہ کم کھیل کود سے بچوں میں مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Schlesinger
انٹرنیٹ اور ویڈیو گیمز
امریکی طبی جریدے ’امیرکن جرنل آف انڈسٹریل میڈیسن‘ کے مطابق وہ بچے جو دن میں پانچ گھنٹے سے زیادہ کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کھیلتے ہیں یا ٹیبلٹ اور اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں، ان کے ڈپریشن کا شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
تصویر: dpa
چینی کا زیادہ استعمال
بچے بازار سے ملنے والی میٹھی چیزوں کے عاشق ہوتے ہیں، مثلاﹰ ٹافیاں، کیک، مٹھائیاں، کوک اور پیپسی جیسے کاربونیٹڈ ڈرنکس وغیرہ۔ ان مٹھائیوں کی وجہ سے ان میں چینی کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ ریسرچرز کے مطابق چینی کی زیادہ مقدار ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے اور یہ دماغ کی نشوونما سے متعلق ہارمونز کو بھی متاثر کرتی ہے۔
تصویر: Colourbox
اینٹی بائیوٹکس کا استعمال
کینیڈا کی میک ماسٹر یونیورسٹی کے محققین نے چوہوں کو اینٹی بائیوٹک ادویات دے کر ان پر ٹیسٹ کیا۔ ان کی تحقیق کے مطابق اس سے چوہے بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں اور دماغ کا وہ حصہ متاثر ہوتا ہے جو جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
ٹاکسن یا نباتاتی زہر سے بچیں
ہمارا ماحول بری طرح آلودہ ہے۔ مثلاﹰ فصلوں میں استعمال ہونے والی کیمیائی ادویات، صفائی کے لیے استعمال ہونے والا مواد، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں اور آلودگی ہمارے جسم کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ زہریلے عناصر بچوں میں بھی بے چینی اور ڈپریشن جیسے مسائل بڑھا رہے ہیں۔