پہلے لوگ اپنی محبتوں کی حفاظت یوں کرتے تھے کہ جیسے ان کی محبت آبگینے ہوں یا سیپی کے اندر نایاب موتی۔ جسے دور کی گردشوں سے بچا کر رکھنا ان کا فریضہ عین ہوا کرتا تھا۔ روٹھے محبوب کو منانا کسی ہارڈ ٹاسک سے کم نہیں ہوتا تھا۔
سوشل میڈیا نے محبت کا مفہوم تقریباً تبدیل کر دیا ہے۔ مضحکہ خیز بات ہے کہ اب لوگ پرانے کو منانے کی بجائے ''نیا‘‘ بنا لیتے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا نت نئے چہروں کی وارئٹی سے روشناس کروانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ بندہ بشر یہی سوچتا ہے کہ اگر ان کی محبت کی جانب سے ذرا بھی چوں چراں کی گئی تو اور آپشن لینے میں کوئی حرج نہیں۔
دراصل ہمارے معاشرے میں جذباتِ محبت کو بام عروج تک پہنچا کر جذبات سے کھیلنے کا ٹرینڈ عام ہو گیا ہے اور لوگ مختلف معاملات میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے کے فعل کو قبیح نہیں سمجھتے۔
انتہائی افسوسناک پہلو ہے کہ عصر حاضر میں ایسے دل پھینک یا انجوائے کرنے والے افراد بھی ہیں، جن کے دل میں کوئی ہوتا ہے، دماغ میں کوئی، نظر میں کوئی۔ ان کا مقصد صرف اپنے مفروضہ شدہ محبوب کے ساتھ محض وقت گزارنا ہوتا ہے۔ اس قسم کے بڑھتے واقعات معاشرے کا شیرازہ بکھیرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
میرے اندازے کے مطابق جذبات کو ٹھیس پہنچانے میں ٹین ایج نہیں بلکہ میچور افراد کا گراف کافی بلند ہے، جو کہ اچھے برے اور نفع و نقصان کا فرق بخوبی جانتے ہیں۔ اس لیول پر کوئی ایک دوسرے کو مجبور یا فورس نہیں کرتا۔ جو بھی کپل یعنی جوڑا بنتا ہے وہ دونوں کی باہمی ''انڈر اسٹینڈنگ‘‘ سے بنتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گزار کر جوس کارنر پر جوس پینے اور فوڈ پوائنٹ پر کھانا کھانے کے بعد ہی ایک دوسرے کو اپنی جاگیر ڈیکلیئر کرتے ہوئے اپنی زندگانی سونپ دیتے ہیں۔
نقطہ آغاز ہمیشہ دوستی کی آڑ میں ہوتا ہے کیونکہ یہاں دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ دوستی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کچھ لوگ مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے صاف رشتہ رکھ کر آگے چلتے ہیں مگر یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مرد ہمیشہ عورت کی پہلی محبت یا توجہ بننا چاہتا ہے، جب کہ عورت اس کی آخری محبت بننے کی خواہش رکھتی ہے۔ مرد و زن کی وفاداری اور بے وفائی دونوں کی پیمائش کرنا ہو تو زمین سے آسمان تک کے فیتے کی ضرورت پڑے گی، جو میرے گمان کے مطابق کہیں دستیاب نہیں ہو سکتا۔
زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ مرد حضرات کی جانب سے اپنی پسندیدہ خاتون کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا کر کہا جاتا ہے کہ میری چوائس بہت براڈ مائنڈڈ ہے، تمام موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کا فن بھی رکھتی ہے۔ ذہانت و فطانت کا جواب نہیں۔ مگر جب حلقہ احباب کی جانب سے مشورہ دیا جائے کہ آپ ان محترمہ سے شادی خانہ آبادی والا سین بنا لیں تو دفعتاً یہ جواب آتا ہے کہ ''شادی وہ تو میں امی کی پسند سے کروں گا۔ میں تو ابھی فی الحال لائف انجوائے کر رہا ہوں۔ ایسی شاطر المغز خاتون سے شادی تھوڑی کرتے ہیں۔‘‘
جب لڑکی ریلیشن شپ کو مزید بڑھانے کا عندیہ دے تو بڑے سمارٹ طریقے سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ پاپا نہیں مان رہے یا ذات کا ایشو ہے۔ وغیرہ۔
گزرے وقتوں میں ایک مقولہ بہت مشہور ہوا کرتا تھا کہ عورت وفا کا استعارہ ہے لیکن اب یہ تاثر اس کے برعکس ہونے لگا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق خواتین مردوں سے زیادہ دھوکے باز ہوتی ہیں۔ مرنے جینے اور ساتھ دینے کی قسمیں کھا کر نیز گفٹس وصول کر کے آخر میں سفیدی جھنڈی استخارہ کی صورت میں دکھا دی جاتی ہے کہ استخارہ ہی ٹھیک نہیں آیا لہذا شادی ممکن ہی نہیں۔ درحقیقت استخارے ہمیشہ سرکاری نوکری اور مال و دھن رکھنے والے لڑکوں کے ہی صحیح آتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ نہ سبھی مرد خراب ہوتے ہیں اور نہ ہی سبھی خواتین بری ہوتی ہیں، لیکن عورت اور مرد کے درمیان ہمیشہ ہی سے دڑاڑ کسی دوسرے مرد اور کسی دوسری عورت کی وجہ سے آئی ہے جو بعدازاں بے وفائی، ندامت وغیرہ پر اختتام پذیر ہوتی چلی آ رہی ہے۔
جذباتِ محبت یہ نہیں کہ آپ فارغ ہیں اور کچھ کرنے کو نہیں ہے لہذا موصوف سے بات کر لی جائے ''ٹائم پاس‘‘ ہو جائے گا۔ نہیں!۔ جذبات تو وہ ہیں کہ لوگوں کی بھیڑ ہو اور آپ سوچیں کہ اسے یہاں ہونا چاہیے۔ اس کی کمی محسوس کی جائے۔ فارغ وقت کی طلب کبھی جذبات محبت تک نہیں پہنچ سکتی۔
تمام باتیں ایک جانب رہیں لیکن کسی کو خواب دکھانا، اسے اپنا عادی بنالینا کہ وہ ایک پل بھی اس کے بغیر نہ رہ سکے۔ پھر جب اپنانے کا وقت آئے تو یہ کہہ دینا کہ کسی کرامت کا انتظار کرو جو ہمیں ایک کردے۔ تف ہے اور انتہائی گھٹیا فعل کہ لوگوں کے جذبات سے کھیلا جائے پھر ان سے ایسی لاتعلقی اختیار کی جائے کہ گویا وہ انہیں کبھی جانتے ہی نہیں تھے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔