1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’لوگ مر رہے ہیں، سرکار سو رہی ہے‘

عبدالستار، اسلام آباد
23 اگست 2022

متاثرین اور سول سوسائٹی کا دعوی ہے کہ حکومت نے موثر انداز میں قدرتی آفت کی زد میں آنے والے افراد کی مدد نہیں کی تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام متاثرین کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔

Pakistan Regen Überschwemmungen
تصویر: Ismail Sasoli/Dawn News

پاکستان میں مون سون کی بارشوں اور اس کے نیتجے میں آنے والے سیلابوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ہے۔ ان بارشوں اور سیلابوں سے اب تک آٹھ سو بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تیرہ سو پندرہ سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

تباہی کا منظر نامہ

سیلابوں اور بارشوں نے پاکستان کے زیر انتطام کشمیر، گلگت بلتستان، سندھ، پنجاب، بلوچستان اور کے پی سمیت تقریبا پورے پاکستان کو ہی متاثر کیا ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں سندھ میں ہوئی ہیں، جہاں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق بائیس اگست تک دو سو اکتیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بلوچستان میں یہ تعداد دو سو پچیس ہے۔ کے پی میں ایک سو چھیاسٹھ، پنجاب میں ایک سو اکیاون، گلگت بلتستان میں نو اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سینتیس ہے۔

چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ان بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے تین لاکھ انیس ہزار چارسو پچاس سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے یا ان میں سے بہت سے تباہ ہوئے ہیں۔ ایک سو انیتس بریجیز، پچاس دکانیں اور دو ہزار آٹھ سو چھیاسی کلومیٹر سے زیادہ سٹرکوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، جب کہ پانچ لاکھ چار ہزار تین سو اکیس سے زائد جانور بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

بارشوں اور سیلابوں سے اب تک آٹھ سو بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Zahid Hussain/AP Photo/picture alliance

بارشوں اور سیلابوں کے علاوہ ملک کے شمالی علاقوں میں گلیشئر بھی گزشتہ کچھ ہفتوں میں گرمی کی حدت کی وجہ سے پگھلے ہیں، جس کی وجہ سے تین ہزار سے زائد مصنوعی جھیلیں بن گئی ہیں۔ بارشوں کی وجہ سے ان جھیلوں میں پانی کی مقدار بڑھی ہے اور اس کی وجہ سے بھی سیلاب آئے ہیں۔ بارشوں، سیلابوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے تقریبا بائیس لاکھ نواسی ہزار چار سو پچپن افراد اگست بائیس یعنی کل تک متاثر ہوئے تھے، جن کے بڑھنے کا امکان ہے۔

’کوئی مدد نہیں آ رہی‘

آبادی کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے لیکن ہلاکتوں اور تباہی کے حوالے سے یہ صوبہ اپنی آبادی کی شرح کے اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ سابق ڈائریکٹرجنرل گوادر انڈسٹریل ڈیولپمینٹ اتھارٹی نثار بزنجو کا کہنا ہے کہ اتنی تباہی کے باوجود بھی سرکار عوام کی مدد کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے صوبے کے تقریباﹰ چونتیس اضلاح متاثر ہوئے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ کھلے آسمان تلے مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ نصیر آباد سمیت کئی اضلاع میں فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ بیماریاں پھوٹ رہی ہیں لیکن سرکار سو رہی ہے۔ وزیر اعلی بلوچستان قدوس بزنجو کہیں نظر نہیں آرہا اور نہ ہی وفاقی حکومت کوئی موثر مدد دے رہی ہے۔‘‘

’سرائیکی علاقوں کو صرف وعدے ملے‘

رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے پاکستان سرائیکی پارٹی کے چیف آرگنائزر قاضی عبدالوحید کا کہنا ہے کہ پنجاب میں سرائیکی بیلٹ بارشوں اور سیلابوں سے بری طرح متاثر ہوا ہے لیکن متاثرین کو وعدوں کے علاوہ ابھی تک کچھ نہیں ملا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''راجن پور اور ڈیرہ غازی خان اضلاع سمیت سرائیکی بیلٹ کے کئی علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ کل انڈس ہائی وے پر آٹھ آٹھ فٹ پانی تھا۔ لوگ مدد کے لئے پکار رہے ہیں لیکن سرکار نے کوئی مدد نہیں کی ہے۔ شہباز شریف اور پرویز الہی دونوں نے دورہ کیا ہے لیکن دونوں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات اور دوسری کارروائیوں میں لگے ہوئے ہیں تو متاثرین کی مدد کون کرے گا۔‘‘

راجن پور اور ڈیرہ غازی خان اضلاع سمیت سرائیکی بیلٹ کے کئی علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیںتصویر: Ismail Sasoli/Dawn News

قاضی عبدالوحید کا مطالبہ تھا کہ حکومت فوری طور پر خود بھی ریلیف کا کام کرے اور بین الاقوامی اداروں کی بھی مدد لے، ''بہت بڑا علاقہ بارشوں اور سیلابوں سے متاثر ہوا ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتیں سارے متاثرین کی موثر انداز میں مدد نہیں کر سکتیں۔ اس لئے انہیں بین الاقوامی تنظیموں سے مدد لینی چاہیے۔‘‘

مدد نہ کرنے کے دعوے 'غلط‘  ہیں

تاہم این ڈی ایم اے ان عناصر کے بیانات کی تردید کرتی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ وہ اپنے طور پر ان متاثرین کی بھرپور مدد کر رہی ہے۔ اتھارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ایک سو سولہ اضلاع میں دو لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور تقریبا بائیس لاکھ اناسی ہزار پانچ سو اکہتر لوگوں کو ہم نے ریسکیو کیا ہے۔ چھپن ہزار چھ سو اکیاسی سے زیادہ افراد ریلیف کیمپ میں ہیں، جن کو ہر ممکن مدد پہنچائی جا رہی ہے۔‘‘

اس افسر کے مطابق بارشوں نے تیس سالہ ریکارڈ توڑا ہے، ''اس کے باوجود ہم نے متاثرین کو بائیس ہزار چار سو پندرہ کیمپس، تئیس ہزار چھ سو پینسٹھ ترپالیں، چوبیس ہزار تین سو پچاس مچھر دانیاں، سترہ ہزار چھ سو پچاس کمبل، پانچ ہزار چھ سو پچاس ہائیجین کٹس، چھ ہزار تین سو پچاس کچن سیٹس، انیس ہزار چار سو فوڈ پیکٹس، سات ہزار سات سو فرسٹ ایڈ کٹس، بارہ ہزار جیری کینز، ایک سو پچاس جنریٹرز، ہزار سیلیپنگ بیگز، ایک سو چھیانوے ڈی واٹرنگ پمپس اور تین سو پچاس لائف سیونگ جیکٹس فراہم کیں ہیں۔ اور یہ چودہ جون سے بائیس اگست تک کے اعداد و شمار ہیں۔‘‘

صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹیز بھی متاثرین کی مدد کر رہی ہیں، جب کہ وفاقی حکومت کی طرف سے متاثرین کو معاوضہ بھی دیا جا رہا ہےتصویر: ISPR Balochaistan

این ڈی ایم اے کی اس افسر نے مذید کہا کہ یہ صرف وفاقی سطح پر مدد پہنچی ہے، ''اس کے علاوہ صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹیز بھی متاثرین کی مدد کر رہی ہیں، جب کہ وفاقی حکومت کی طرف سے متاثرین کو معاوضہ بھی دیا جا رہا ہے۔‘‘

صورت حال کی سنگینی

واضح رہے کہ ماہرین کے خیال میں بارشوں کا یہ سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ یہ ابھی بھی جاری ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بارشوں کی تباہی اور مزید متوقع بارشوں کے پیش نظر سندھ میں ڈیرے ڈال لئے ہیں اور اپنے بیرونی دورے کچھ وقت کے لیے ملتوی کر دیے ہیں۔

وفاقی حکومت بھی صورت حال کی سنگینی کا تاثر دے رہی ہے اور یہ دعوی کر رہی ہے کہ وہ عوام کی مدد کرنے میں پیش پیش ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک ڈونر کانفرنس منعقد کی جائے گی۔

پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلاب سے تباہ کاریاں

02:18

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں