1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لویہ جرگہ نے افغان امریکی سکیورٹی معاہدے کی حمایت کر دی

عصمت جبیں24 نومبر 2013

افغانستان میں لویہ جرگہ نے آج ہونے والی رائے دہی میں کابل حکومت کے امریکا کے ساتھ انتہائی اہم سکیورٹی معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ افغان قبائلی سربراہان اور دیگر رہنماؤں کے اس اجلاس میں ڈھائی ہزار مندوبین حصہ لے رہے ہیں۔

تصویر: Reuters

آج اتوار کی سہ پہر لویہ جرگہ کے ایک نائب اسپیکر نے کابل میں تصدیق کر دی کہ اس اجلاس کے شرکاء کی طرف سے صدر حامد کرزئی کو سفارش کر دی گئی ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ دوطرفہ سلامتی معاہدے پر دستخط کر دیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق اس معاہدے پر دستخطوں کے نتیجے میں امریکی فوجی دستے 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں تعینات رہ سکیں گے۔ اس معاہدے کی لویہ جرگہ کے کسی بھی مندوب نے مخالفت نہیں کی۔

لویہ جرگہ کی حیثیت افغانستان کی قومی مشاورتی کونسل کی ہےتصویر: MASSOUD HOSSAINI/AFP/Getty Images

اس اجلاس میں قریب ڈھائی ہزار مندوبین نے اپنی حتمی رائے انفرادی طور پر نہیں دی بلکہ شرکاء کو مختلف سرکردہ رہنماؤں کی قیادت میں پچاس کمیٹیوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ان کمیٹیوں نے اپنے اپنے طور پر افغانستان کے امریکا کے ساتھ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کے حوالے سے غور و فکر کیا۔

بعد ازاں ان کمیٹیوں کے سربراہان نے لویہ جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اپنے پارلیمانی گروپوں کے فیصلے سنائے۔ اس دوران کسی بھی کمیٹی کے سربراہ نے اس بات کی مخالفت نہ کی کہ کابل حکومت کو واشنگٹن کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ طے کر لینا چاہیے۔

لویہ جرگہ کی حیثیت افغانستان کی قومی مشاورتی کونسل کی ہے۔ اسے وسیع تر افغان قبائلی پارلیمان کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس کونسل کے ارکان نے آج اتوار کو اپنے فیصلے سے قبل تین روز تک امریکا کے ساتھ مجوزہ سکیورٹی معاہدے کے مسودے پر تفصیلی بحث کی۔

اس اجلاس میں ڈھائی ہزار مندوبین نے حصہ لیاتصویر: Reuters

اب صدر کرزئی کو یہ سفارش کر دی گئی ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کر سکتے ہیں۔

اس معاہدے کے تحت افغانستان میں امریکی فوجی 2014ء کے بعد زیادہ تر ان افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور مدد کا کام کریں گے، جنہیں ابھی تک طالبان عسکریت پسندوں کی مسلح بغاوت کا سامنا ہے۔

لویہ جرگہ کو افغانستان میں کوئی قانونی اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ یہ قبائلی اسمبلی صرف صدر کرزئی کو سفارشات پیش کر سکتی ہے۔ صدر حامد کرزئی نے لویہ جرگہ کا اجلاس اس لیے بلایا تھا کہ وہ انہیں اس بارے میں مشورہ دے سکے کہ آیا صدر کرزئی کو امریکا کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کر نا چاہییں یا نہیں۔

امریکا میں اوباما انتظامیہ ایسے کسی معاہدے پر سال رواں کے اختتام سے پہلے اس لیے دستخطوں کی خواہش مند ہے کہ اگلے سال کے آخر تک افغانستان سے نیٹو فوجی دستوں کے انخلاء کے پس منظر میں اسے کافی وقت مل سکے کہ وہ سن دو ہزار پندرہ سے افغانستان میں اہنے ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کے لیے ضروری تیاریاں کر سکے۔

اسی دوران کابل سے ملنے والی تازہ رپورٹوں کے مطابق صدر حامد کرزئی نے امریکا کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر فوری دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حامد کرزئی نے لویہ جرگے سے اپنے اختتامی خطاب میں کہا کہ وہ سلامتی کے شعبے میں امریکا کے ساتھ دوطرفہ سمجھوتے پر فوری دستخط نہیں کریں گے۔

صدر حامد کرزئی نے جمعرات کو لویہ جرگہ کے آغاز پر بھی کہا تھا اس قبائلی اسمبلی کو امریکا کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کی حمایت کر دینا چاہیے لیکن وہ خود اس پر دستخط کرنے کے بجائے یہ کام اپنے جانشین صدر پر چھوڑ دیں گے۔

افغانستان میں آئندہ صدارتی الیکشن اگلے سال پانچ اپریل کو ہوں گے۔ حامد کرزئی اس وقت اپنے عہدے کی دوسری مدت پوری کر رہے ہیں اور آئین کے مطابق تیسری مرتبہ صدارتی امیدوار نہیں بن سکتے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں