لو اسٹوری ’موئن جو دڑو‘، وادی سندھ کی قدیم تہذیب پر بنی فلم
11 اگست 2016بالی وُڈ کی ہٹ فلموں ’لگان‘ اور ’جودھا اکبر‘ کے ہدایتکار اشوتوش گواریکر نے اپنی فلم ’موئن جو دڑو‘ کے لیے ایک وسیع و عریض سیٹ لگایا، جس میں اس شہر کو مصنوعی طور پر لیکن پھر سے زندہ کر دیا گیا۔ اس فلم میں بھارتی سینما کی روایت کے مطابق اچھائی اور برائی کی جنگ دکھائی گئی ہے، جس میں محبت کی ایک کہانی نمایاں رہتی ہے۔
گواریکر نے روئٹرز کو بتایا، ’’مجھے ایسی کہانیاں سنانا پسند ہیں، جو ابھی تک سنائی نہ گئی ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ موئن جو دڑو کی قدیم تہذیب کے بارے میں بھی کچھ بہت زیادہ نہیں کہا گیا ہے۔‘‘
گواریکر نے کہا کہ ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق کو بنیاد بناتے ہوئے اگر اس بارے میں کوئی فلم بنانے کی کوشش کی جائے تو ضروری ہوتا ہے، ’’جتنا ہو سکے حقائق سے نہ ہٹا جائے لیکن ساتھ ہی خیالی موضوعات کو بھی شامل کیا جائے، کیونکہ اس صورت میں ایک کہانی تیار کی جا سکتی ہے۔‘‘
موجودہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں موئن جو دڑو کی باقیات اقوام متحدہ کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس قدیمی شہر پر بنائی جانے والی فلم کے ہیرو ہریتیک روشن ہیں جبکہ اس فلم کو رواں سال کی ایک بڑی فلم قرار دیا جا رہا ہے۔
ہریتیک روش نے گواریکر کی فلم ’جودھا اکبر‘ میں بھی مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی یہ تاریخی فلم نہ صرف بھارت بلکہ دوسرے ممالک میں بھی ایک کامیاب فلم ثابت ہوئی تھی۔
ہریتیک روش نے ’موئن جو دڑو‘ فلم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے روئٹرز کو بتایا، ’’گواریکر اپنی فلموں کے بارے میں دیوانگی کی حد تک جذباتی ہیں۔ وہ پہلے بھی ایسے ہی تھے اور مستقبل میں بھی شاید ایسے ہی رہیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’گواریکر نے اس فلم کو شروع کرنے سے قبل مجھ سے گفتگو کی تھی۔ اگر میں اور وہ اس فلم کو اب نہ بناتے تو یہ کبھی نہ بن پاتی۔‘‘
چھبیس سو سال قبل از مسیح میں وجود میں آنے والی وادی سندھ کی قدیم تہذیب موئن جو دڑو قریب سترہ سو سال قبل از مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہو گئی تھی۔
ماہرین آثار قدیمہ اس تہذیب اور شہر کے ختم ہونے کے بارے میں مختلف اندازے لگاتے ہیں۔ موجودہ پاکستان میں اس تہذیب کی باقیات اب بھی انتہائی اچھی حالت میں موجود ہیں، جو آثار قدیمہ کے ماہرین ، محققین اور سیاحوں کے لیے انتہائی دلفریب اور پرکشش ہیں۔
موئن جو دڑو کو، جسے سندھ کی مقامی زبان میں موئن جو دڑو اور اردو میں موہنجوداڑو بھی کہا جاتا ہے، فن تعمیر اور انسانی ترقی کی ایک اعلیٰ مثال قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی بربادی کے سینتیس سو برس بعد تک اس کی باقیات کا بھی کوئی نشان نہیں ملا تھا۔
پھر انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں پہلی مرتبہ اس تہذیب کے بچے کھچے آثار اور نشانات ملے، جس کے بعد ماہرین نے اس قدیمی شہر کے بارے میں حقائق کو باقاعدہ طور پر جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔