لو پریڈ: ہلاکتوں پر جرمن سیاستدانوں کا شدید رد عمل
27 جولائی 2010یہ نوجوان جرمنی کے سب سے گنجان آباد صوبے نارتھ رائن ويسٹ فيليا کے صنعتی شہر ڈوئسبرگ ميں 24 جولائی کی شام ٹینکو موسیقی کے دنیا کے سب سے بڑے میلے کے دوران بھگدڑ کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حادثے میں انسانی ہلاکتوں کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، جس کا رُخ شہر کے میئر اڈولف زاؤئرلانڈ کی جانب ہے کہ اُنہوں نے منتظمین کی جانب سے خبردار کئے جانے کے باوجود خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے تھے۔
اِسی دوران جرمن سیاستدانوں نے اِس افسوسناک واقعے کے حوالے سے ٹھوس اور مؤثر کارروائی کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وفاقی جرمن پارلیمان میں یونین جماعتوں سی ڈی یُو، سی ایس یُو کی حزب کے داخلی سیاسی امور کے ترجمان ہنس پیٹر اُوہل نے ذمہ دار عہدیداروں کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ جرمن پارلیمان کی داخلہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین وولف گانگ بوزباخ نے اِس بات پر غصے کا اظہار کیا ہے کہ لو پریڈ کے منتظمین نے اِس المیے کی وجوہات کا پتہ چلانے کی کوششوں میں ابھی تک کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
کولون کے اخبار ’کوئلنشن رُنڈ شاؤ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اِس سانحے سے ایک روز پہلے تک بھی مختلف اجلاسوں میں لو پریڈ کے دوران سلامتی کے خاکوں پر بحث کی جا رہی تھی اور یہ کہ پولیس اور فائر بریگیڈ نے ایک بار پھر نمایاں طور پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ سلامتی کے ان انتظامات کے ساتھ یہ اجتماع منعقد نہیں ہو سکتا۔ شہر کے میئر اڈولف زاؤئر لانڈ کے مطابق اُنہیں لو پریڈ کے آغاز سے پہلے سلامتی کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کا علم نہیں تھا۔
اسی دوران اس میلے کے منتظمین پولیس کی بری کارکردگی کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، جس پر آج اس صوبے کی پولیس یونین کی طرف سے سخت غم وغصے کا اظہار کیا گیا۔ پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ منتظمین کی طرف سے پولیس پر لا پرواہی کے الزامات مضحکہ خیز ہیں۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ لو پریڈ کے منتظمین نے پانچ لاکہ افراد کی شرکت کی خبر دی تھی، جس پر انہیں صرف ڈیڑھ لاکھ افراد کو شریک کرنے کی اجازت ملی تھی۔ درحقیقت اس میلے میں آخرکار دس لاکھ شائقین شریک ہوئے، جس کی منتظمین کو قطعی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
پولیس یونین نے اب اس سانحے کے بارے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یونین کے سربراہ رائینر وینٹ نے ایک جرمن اخبارکو انٹرویو دیتے ہوئے صوبائی اسمبلی سے اس سانحے کے بارے میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس سانحے کے بعد اب ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ حادثے کے تین روز بعد ڈوئسبرگ کے ميئر اڈولف زاؤئر لانڈ پر مستعفی ہو جانے کے لئے شديد دباؤ ہے۔ پولیس یونین کے سربراہ نے بھی ڈوئسبرگ کے ميئر سے مستعفی ہو جانے کو کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس شہر کے انتظامی سربراہ کے طور پر ان کے پاس اس سانحےکی ذمے داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
رپورٹ: بریخنا صابر
ادارت: امجد علی