1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Gaddafis vergiftetes Erbe

Peter Abs19 اکتوبر 2012

معمر القذافی چار عشروں تک ليبيا کے سياہ سفيد کے مالک رہے۔ اُن کے قتل کے ايک سال بعد ملک کو ايک نئی رياست کے قيام کا مشکل مرحلہ درپيش ہے۔

تصویر: AFP/Getty Images

ليبيا کے طول و عرض ميں مسلح گروپوں کا زور ہے، جنہوں نے جرائم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

پچھلے برسوں کے دوران ليبيا کے مقتول رہنما معمر القذافی نے کئی يورپی سربراہان کو بھی مدعو کيا اور سياسی رواج کے مطابق قذافی اور ان رہنماؤں کے درميان بظاہر بڑا دوستانہ ماحول نظر آتا تھا۔ ليبيا کے مطلق العنان حکمران اپنے اقتدار کے آخری زمانے ميں اعتدال پسند بھی ہو گئے تھے۔ ليکن وہ ايک عرصے سے حقيقی دوستوں اور اتحاديوں سے محروم ہو چکے تھے۔ 2011 کے شروع ميں جب سلامتی کونسل ميں ليبيا کے خلاف نيٹو کی کارروائی کی قرارداد پيش ہوئی تو اس کے خلاف ايک بھی رکن ملک نے ووٹ نہيں ديا۔

چار عشروں تک قذافی تمام اختيارات کے مالک رہے۔ ملک ميں سياسی جماعتوں کی تشکيل کی اجازت نہيں تھی، اپوزيشن کو دبايا جاتا تھا۔ ايک طاقتور حريف کے خوف سے قذافی نے جان بوجھ کر ملک کے معيشی ڈھانچے سے لاپرواہی برتی۔ فوج تک اپنے طور پر کوئی اقدام کرنے کے قابل نہيں تھی۔ اب ليبيا ميں بالکل نئے سياسی ڈھانچے تعمير کرنا ہوں گے۔ دنيائے عرب سے متعلق تحقيق کے جرمن مرکز کے پروفيسر گُنٹر مایر کہتے ہیں: ’يہ ايک بہت غير معمولی چيلنج ہے۔ پورے رياستی نظام، سکيورٹی فورس اور فوج کی نئے سرے سے تشکيل کرنا ہو گی‘۔

ليبيا کی آبادی کے گروہ تاريخی طور پر اپنے اپنے فائدے کو مقدم رکھتے ہيں۔ تين بنيادی علاقوں ميں بٹا ہوا ليبيا اطالوی نو آبادی تھا۔ اس کے بعد 1963 تک پہلے حکمران ادريس کی بادشاہت ميں ليبيا کا آئين وفاقی تھا۔ 1969 ميں شاہ ادريس کے خلاف کرنل قذافی کی بغاوت کے وقت ان تينوں علاقوں سرينائکا، فيسان اور طرابلس میں الگ الگ وحدتيں قائم تھیں۔ آج بھی ليبيا کے بہت سے شہری اپنے شہر اور قبيلے سے وابستگی کو ايک مرکزی رياست سے زيادہ اہميت ديتے ہيں۔

ليبيا ميں ايک شخص اپنا اسلحہ فوج کے حوالے کرتے وقتتصویر: picture-alliance/dpa

قذافی نے تيل کی دولت کا زيادہ حصہ دارالحکومت طرابلس اور اپنے آبائی علاقے سرت پر خرچ کيا۔ مشرق کے علاقے اور اُس کے شہر بن غازی سے کافی لاپرواہی برتی گئی۔ تعجب کی بات نہيں کہ پچھلے سال فروری ميں وہيں سے بغاوت شروع ہوئی اور بن غازی اس کا مرکز بنا رہا۔ اس وقت مرکزی حکومت اقدام کے قابل فوجی قيادت سے محروم ہے۔ ملک پر مليشيا اور جرائم پيسہ گروہوں کا راج ہے جو آپس ميں بھی لڑتے رہتے ہيں۔

ليبيا ميں ماضی ميں جو کچھ ہوا اُس کا کوئی احتساب نہيں کیا جا رہا ہے۔ ہيومن رائٹس واچ کے مطابق قذافی کی فوج ہی نے نہيں بلکہ باغيوں نے بھی سنگین جرائم کيے ۔ انہوں نے بڑی تعداد ميں فوجيوں کو قتل کیا۔ قذافی کی موت کے ايک سال بعد حکومت نے جنگی جرائم اور دوسرے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف تحقيقات شروع تک نہيں کی ہيں۔ ملک ميں دندنانے والے مليشيا گروہوں اور جرائم کے ذمہ دار عناصر کی پکڑ بھی بہت ضروری ہے۔

A. Allmeling, sas / D. Hodali, mm

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں