ليبيا ميں فوجی مداخلت کے نتائج کا اندازہ بہت مشکل ہے
18 مارچ 2011سلامتی کونسل نے بالکل آخری لمحے ميں ليبيا پر نو فلائی زون قائم کرنے کا فيصلہ کرليا ہے اور اس طرح اس نے ليبيا کے شمال ميں باغيوں اور شہری آبادی کو سرکاری فوج کے فضائی حملوں سے تحفظ مہيا کيا ہے۔ قذافی کے لڑاکا جيٹ طيارے جو حملوں کے لیے تيار کھڑے تھے، اب سلامتی کونسل کے اس فيصلے کے بعد کارروائی نہيں کر سکيں گے۔
سلامتی کونسل ميں ليبيا پر نو فلائی زون کی قرارداد پر رائے شماری کے دوران کونسل کے مستقل اراکين چين اور روس ہی کی طرح جرمنی نے بھی، جو کونسل کا غير مستقل رکن ہے، اپنی رائے محفوظ رکھی اور اس کی بہت معقول وجہ بھی ہے کيونکہ فوجی مداخلت کے سلسلے ميں بہت سے تفکرات بھی پائے جاتے ہيں۔ يہ اميد تو ہے کہ نو فلائی زون سے قذافی کا رويہ تبديل ہوگا اور فائر بندی پر بات چيت ہوسکے گی۔ ليکن يہ اميد غلط بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کے فوری بعد مؤثر فوجی اقدامات کيے جانا ضروری ہيں ورنہ اس دھمکی کا کوئی اثر نہيں ہوگا۔
فرانس، برطانيہ اورامريکہ فوجی مداخلت کے لیے تيار دکھائی ديتے ہيں۔ نيٹو کے بعض ممالک سپلائی اور نقل وحمل کا کام سنبھاليں گے۔ ليکن ايک فوجی کارروائی کے ساتھ، چاہے وہ صرف فضائی ہی کيوں نہ ہو، بہت سے سوالات پيدا ہوتے ہيں۔ جن ممالک نے فوجی مداخلت کی حمايت کی ہے، اُن ميں سے کتنے ہيں، جو شمالی افريقہ ميں مستقل فوجی موجودگی پر تيار ہوں گے؟ سن 1990ء کے عشرے ميں شمالی عراق پر کردوں کی حفاظت کے لیے جو نو فلائی زون قائم کيا گيا تھا، فرانس جلد ہی اس سے دستبردار بھی ہوگيا تھا۔ جہاں تک امريکہ کا تعلق ہے تو امريکی فوج ميں ايک اور جنگ کا شوق کم ہی دکھائی ديتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ عراق اور افغانستان ميں مشکل فوجی کارروائيوں سے سبق حاصل ہوا ہے اور افغانستان سے پيچيدہ فوجی انخلاء بھی دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
ہرفوجی کارروائی، چاہے وہ اخلاقی لحاظ سے کتنی بھی جائز کيوں نہ ہو، بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ اگر قذافی کے فوجيوں نے باغيوں پر زمينی چڑھائی کی تو پھر کيا ہوگا؟ سلامتی کونسل نے باغيوں کی حمايت ميں زمينی فوجی دستوں کے استعمال کی اجازت نہيں دی ہے۔ عرب ممالک ميں سے شايد صرف قطر اور متحدہ عرب امارات مداخلت کے لیے تیار ہيں۔
اگر ليبيا تقسيم ہوجاتا ہے تو مشرقی ليبيا ميں باغيوں کے علاقے کا وجود قائم رکھنے کے لیے باہر سے زبردست مدد کی ضرورت ہوگی۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کے نتائج اس سے کہيں زيادہ پيچیدہ ہوسکتے ہيں، جتنے کہ وہ پہلی نظرميں دکھائی ديتے ہيں۔
تبصرہ: ڈانيل شيشکيوٹس
ترجمہ : شہاب احمد صديقی
ادارت : عاطف بلوچ