غير قانونی طور پر ليبيا ميں داخل ہونے کے سبب کم از کم سات سے آٹھ ہزار مہاجرين کو حراست ميں لے ليا گيا ہے۔ يورپ ميں بلقان ممالک والے روٹ کی بندش کے بعد پچھلے سال سے يورپ کی طرف ہجرت زیادہ تر ليبيا کے راستے ہی ہو رہی ہے۔
اشتہار
غير قانونی ہجرت کے انسداد کے ليے ليبيا کے سرکاری ادارے کے ايک اہلکار عبدالرزاق الشنيتی کے بقول غير قانونی داخلے پر تقريباً سات سے آٹھ ہزار کے درميان مہاجرين کو مختلف حراستی مراکز ميں رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے يہ بات طرابلس کے مشرقی علاقے ميں ايک نئے حراستی مرکز کے قيام کے سلسلے ميں منعقدہ تقريب کے موقع پر گزشتہ روز بتائی۔ شمالی افريقی رياست ليبيا ميں قيد زيادہ تر مہاجرين کا تعلق سب صحارا افریقہ کے خطے سے ہے۔ يہ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے، جو براعظم افريقہ کے ان ممالک کے لیے استعمال ہوتی ہے جو، صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع ہیں۔
عبدالرزاق الشنيتی نے بتايا کہ اس وقت ليبيا ميں کل تيئس ايسے مراکز ہيں، جہاں مہاجرين کو رکھا جا رہا ہے۔ اس اہلکار کے مطابق تاجوراء ميں کھلنے والے نئے حراستی مرکز ميں ايک سو تيس افريقی مہاجرين قيد ہيں، جنہيں گزشتہ ہفتے ايک گودام سے گرفتار کيا گيا تھا۔ انسانوں کے اسمگلروں نے انہيں اس گودام ميں چپھا رکھا تھا تاکہ موقع ملتے ہی انہيں يورپ کے غير قانونی سفر کے ليے کشتيوں پر روانہ کيا جا سکے۔ غير قانونی ہجرت کے انسداد کے ليے ليبيا کے سرکاری ادارے کے اس اہلکار نے مزيد بتايا کہ انسانوں کے متعدد اسمگلروں کو حراست ميں ليا جا چکا ہے اور ان کے خلاف عنقريب قانونی کارروائی کی جائے گی۔
عبدالرزاق الشنيتی کے مطابق ليبيا ميں غير قانونی ہجرت کی ايک اہم وجہ يہ ہے کہ اس ملک کی جنوبی سرحد پر کوئی پہرا نہيں ہے۔ ان کے بقول اگر ليبيا کی جنوبی سرحد کی نگرانی شروع کر دی جائے، تو اس سے مہاجرين کے بحران کی شدت ميں کمی ممکن ہے۔ ليبيا کی جنوبی سرحد تقريباً پانچ ہزار کلوميٹر طويل ہے، جو سوڈان، چاڈ اور نائجر کی سرحدوں سے ملتی ہے۔ پچھلے سال ايک لاکھ اسی ہزار سے زائد پناہ گزين اطالوی سرحدوں تک پہنچے، جن کی بھاری اکثريت ليبيا ہی کے راستے وہاں پہنچی تھی۔
یورپ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے سمندر قبرستان بن گیا
مائیگرنٹ آف شور ايڈ اسٹيشن نامی ايک امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب گزشتہ ہفتے چودہ اپریل کو مختلف اوقات میں سمندر ميں ڈوبتی دو کشتیوں تک پہنچی تو کبھی نہ بھولنے والے مناظر دیکھے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
بہتر زندگی کی خواہش
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بہتر زندگی کی خواہش رکھنے والے 43،000 تارکین وطن کو رواں برس سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
آنکھوں میں خوف کے سائے
ڈوبنے سےبچ جانے والا ایک مہاجر بچہ فینکس کے امدادی اسٹیشن پر منتقل کیا جا چکا ہے لیکن اُس کی آنکھوں میں خوف اور بے یقینی اب بھی جوں کی توں ہے۔ اس مہاجر بچے کو وسطی بحیرہ روم میں لکڑی کی ایک کشتی ڈوبنے کے دوران بچایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
کم سن بچہ سمندر کی گود میں
رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو فونیکس کشتی کے عملے نے ایک چند ماہ کے بچے کو اُس وقت بچایا جب کشتی بالکل ڈوبنے والی تھی۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
عملے کی مستعدی
لیبیا کے ساحلوں سے دور بحیرہ روم کے وسطی پانیوں میں ہچکولے کھاتی لکڑی کی ایک کشتی سے ایک بچے کو اٹھا کر فونیکس کے امدادی اسٹیشن منتقل کرنے کے لیے عملے کے اہلکار اسے اوپر کھینچ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
امدادی اسٹیشن پر
مالٹا کی غیر سرکاری تنظیم کے جہاز کے عرشے پر منتقل ہوئے یہ تارکین وطن خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انہیں رواں ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک ربڑ کی کشتی ڈوبنے پر سمندر سے نکالا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
سمندر میں چھلانگیں
’مائیگرنٹ آف شور ایڈ اسٹیشن نامی‘ امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب سمندر ميں مشکلات کی شکار ايک ربڑ کی کشتی تک پہنچی تو اس پر سوار مہاجرين اپنا توازن کھونے کے بعد پانی ميں گر چکے تھے۔ انہيں بچانے کے ليے ريسکيو عملے کے کئی ارکان نے سمندر ميں چھلانگيں لگا ديں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
میں زندہ ہوں، یقین نہیں آتا
امدادی کارروائی کے نتیجے میں بچ جانے والے ایک تارکِ وطن نے سمندر سے نکالے جانے کے بعد رد عمل کے طور پر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے اپنے بچ جانے کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے فوٹو جرنلسٹ ڈيرن زيمٹ لوپی بھی ’فِينِکس‘ پر سوار تھے۔ انہوں نے ريسکيو کی اس کارروائی کو ديکھنے کے بعد بتایا، ’’ميں پچھلے انيس سالوں سے مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق کہانياں دنيا تک پہنچا رہا ہوں، ميں نے اس سے قبل کبھی ايسے مناظر نہيں ديکھے جو ميں نے آج ديکھے ہيں۔