لڑکيوں کی پيدائش کم ہونے کا امکان اور اس کے ممکنہ اثرات
3 اگست 2021
بچوں کی پيدائش کے معاملے ميں لڑکوں کو لڑکيوں پر ترجيح دينے اور اس سے منسلک اقدامات کی وجہ سے لڑکيوں کی پيدائش کی شرح کم ہونے کا امکان ہے۔ اس کے آبادی، معاشرے اور اقتصاديات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اشتہار
ايک محتاط اندازے کے مطابق آئندہ دس برسوں کے دوران دنيا بھر ميں توقع سے 4.7 ملين کم لڑکياں پيدا ہوں گی۔ يہ انکشاف ايک تازہ مطالعے ميں کيا گيا ہے۔
کئی معاشروں ميں لڑکوں کو ترجيح دی جاتی ہے۔ جنوب مشرقی يورپ کے علاوہ جنوبی و مشرقی ايشيا ميں صنف کی بنياد پر اسقاط حمل جاری ہے اور يہی حقيقت لڑکيوں کی پيدائش کی شرح ميں کمی کی وجہ بن سکتی گی۔ اس ممکنہ صورت حال سے طويل المدتی بنيادوں پر معاشرے ميں عورتوں اور مردوں کا توازن خراب ہو گا۔
اس اسٹڈی ميں دو فرضی صورت حال کا جائزہ ليا گيا۔ محققين نے ان بارہ ملکوں پر توجہ مرکوز رکھی، جہاں آبادی ميں سن 1970 سے لے کر اب تک مردوں کا عورتوں مقابلے ميں تناسب بڑھا ہے۔ان سترہ ملکوں پر بھی توجہ دی گئی جہاں سماجی رويوں اور متنازعہ عوامل کی وجہ سے ايسی صورتحال کا خطرہ موجود ہے۔
پھر تحقيق کے مقصد سے دو مختلف صورتوں کا جائزہ ليا گيا۔ پہلی صورت ميں دستياب اعداد و شمار کی بنياد پر اور رجحان ديکھا گيا اور اس کی بنياد پر پيشن گوئی کی گئی، جس کے تحت اگلے دس برسوں ميں توقع سے 4.7 ملين کم لڑکياں پيدا ہو سکتی ہيں۔
دوسری صورت ميں ايسے ممالک کو مثال بنايا گيا، جہاں سے مصدقہ ڈيٹا نہيں مل سکا۔ ان ملکوں ميں مبصرين کی رائے کی بنياد پر پيشن گوئی پر مرتب کی گئی، جس کے تحت اس صدی کے اختتام تک توقع سے بائيس ملين کم لڑکياں پيدا ہو سکتی ہيں۔
صنف کی بنياد پر امتيازی سلوک آج بھی ايک حقيقت ہے۔ جنوب مشرقی يورپ اور جنوبی و مشرقی ايشيا کے کئی ممالک ميں صنف کی بنياد پر اسقاط حمل ميں گزشتہ چاليس برسوں سے اضافہ نوٹ کيا جا رہا ہے۔ ابھی تک اس کے آبادی پر اثرات پر جامع تحقيق نہيں کی گئی ہے۔
اس مطالعے کے نتائج بی ايم جے ميڈيکل جرنل ميں شائع ہوئے ہيں۔ محققين کا کہنا ہے کہ اس ممکنہ صورتحال کا ايک نتيجہ يہ بھی نکل سکتا ہے کہ متاثرہ ممالک ميں شادی بياہ ميں مسائل درپيش آئيں۔ توقع سے کم لڑکيوں کی پيدائش سے سماجی سطح پر رويوں ميں تبديلی بھی آ سکتی ہے اور تشدد کا عنصر بھی ابھر سکتا ہے۔
صنف کی بنياد پر اسقاط حمل اور ديگر صورتوں ميں امتياز کو اقوام متحدہ کے ميلينيئم ڈيویلپمنٹ اہداف ميں منفی عوامل قرار ديا جاتا ہے۔ مطالعے پر کام کرنے والی ٹيم نے اس ضمن ميں ڈيٹا جمع کرنے اور ان کے انسداد کے ليے اقدامات کی ضرورت پر زور ديا ہے۔
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔