بھارتی رياست مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں نے يہ انکشاف کيا ہے کہ کم عمری ميں شاديوں کے بعد لڑکيوں کو گھروں ميں کام کاج کے ليے يا پھر جنسی مقاصد کے ليے قيد رکھا جاتا ہے۔
اشتہار
مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے محققين ان دنوں ايک ايسے اولين مطالعے پر کام کر رہے ہيں جس کا مقصد کم عمری ميں شادی اور غلامی کے مابين تعلق کا تعين ہے۔ مہاراشٹرا ميں عورتوں کے کميشن کی سربراہ وجايا راہتکار نے اس امر کی تصديق کی ہے۔
بھارت ميں لڑکيوں کے ليے شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ برس اور مردوں کے ليے اکيس برس مقرر ہے۔ قانون کی خلاف ورزی يا مقررہ عمر تک پہنچنے سے قبل اپنے بچوں کی شادی کرانے والے والدين کو دس ہزار روپے اور دو برس قيد کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم بھارت کے ديہی اور غريب علاقوں ميں لڑکيوں کے ساتھ امتيازی سلوک عام ہے۔ ان علاقوں ميں لڑکيوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے انہيں اٹھارہ برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بياہ ديا جاتا ہے۔
وجايا راہتکار نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ کم عمری ميں کرائی جانے والی اکثريتی شادياں زيادہ عرصے تک نہيں چل پاتيں۔ ان کے بقول اب ايسے کئی کيسز سامنے آ چکے ہيں، جن ميں کم عمری ميں شادی اور ہیومن ٹريفکنگ کی کڑياں براہ راست ملتی ہيں۔ مہاراشٹرا ميں عورتوں کی کميشن کی سربراہ کے بقول انہوں نے اس سلسلے ميں مطالعہ کرانے کا فيصلہ ايسی رپورٹيں موصول ہونے کے بعد کيا، جن کے مطابق کم عمری ميں بياہ دی گئی لڑکيوں کو گھروں ميں غلام بنا کر قيد رکھا گيا يا پھر انہيں قحبہ خانوں ميں فروخت کر ديا گيا۔
يہ سروے اس وقت رياست کے مختلف اضلاع ميں جاری ہے اور اس ميں کم عمری ميں شاديوں کے واقعات کی تعداد اکھٹی کی جائے گی۔ بعد ازاں يہ معلومات ديگر رياستوں کو بھی فراہم کی جائے گی۔ ہيومن ٹريفکنگ کے انسداد کے ليے سرگرم گروپ ’جسٹس اينڈ کيئر‘ سے منسلک ايڈريئن فلپس کے مطابق لڑکيوں کی کم عمری ميں شادی اور غلامی کے درميان تعلق کے بارے ميں معلومات کا مکمل فقدان ہے۔ فلپس کا ادارہ اس مطالعے ميں مدد فراہم کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سروے ان دونوں جرائم کے گہرے تعلق کے بارے ميں شواہد و معلومات عام کرے گا۔
بچوں کے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے يونيسف نے رواں سال مارچ ميں ہی يہ کہا تھا کہ بھارت ميں کم عمری ميں شادی کرا دينے کے واقعات ميں نماياں کمی ديکھنے ميں آئی ہے۔ تاہم اب بھی ستائيس فيصد شاديوں ميں لڑکيوں کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہوتی ہے۔
بھارت کے امراء میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔