لڑکیاں بدسلوکی کے خوف سے سوشل میڈیا چھوڑنے پر مجبور
5 اکتوبر 2020
بائیس ملکوں کی لڑکیوں پر کیے گئے سروے کے مطابق 60 فیصد لڑکیوں کو سوشل میڈیا پر بدسلوکی یا ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لڑکیوں پر حملے سب سے زیادہ فیس بک پر ہوتے ہیں۔
اشتہار
ایک عالمی سروے کے مطابق آن لائن بدسلوکی اور ہراساں کیے جانے کی وجہ سے لڑکیاں سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کرنےپر مجبور ہورہی ہیں۔ اس سروے میں شامل 58 فیصد سے زیادہ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں کسی نہ کسی قسم کی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لڑکیوں پر حملے سب سے زیادہ فیس بک پر ہوتے ہیں، اس کے بعد انسٹاگرام، واہٹس ایپ اور سنیپ چیٹ کا نمبر ہے۔
پلان انٹرنیشنل نامی تنظیم کی جانب سے کیے گئے سروے میں 22 ملکوں میں 15 سے 22 برس کی عمر کی 14000 لڑکیوں سے بات کی گئی۔ اس میں امریکا، برازیل، بینن اور بھارت کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ان لڑکیوں سے تفصیلی انٹرویو بھی کیے گئے۔
اشتہار
فیس بک پر سب سے زیادہ بدسلوکی
سوشل میڈیا پر خواتین پر حملے ایک عام بات تصور کی جاتی ہے۔ فیس بک پر یہ حملے سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ 39 فیصد لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں فیس بک پر بدسلوکی اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ سروے کے مطابق انسٹا گرام پر 23 فیصد، واہٹس ایپ پر 14 فیصد، اسنیپ چیٹ پر 10 فیصد، ٹوئٹر پر 9فیصد اور ٹک ٹاک پر6 فیصد لڑکیوں کو ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ بدتمیزی کا رجحان عام ہے۔
کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم محفوظ نہیں
سروے سے اندازہ ہو کہ بدسلوکی یا ہراساں کیے جانے کی وجہ سے ہر پانچ میں سے ایک لڑکی نے سوشل میڈیا کا استعمال یا تو بند کردیا یا اسے بہت محدود کردیا۔ سوشل میڈیا پر بدسلوکی کے بعد ہر دس میں سے ایک لڑکی نے اپنی رائے کے اظہار کا طریقہ تبدیل کردیا۔
سروے میں شامل 22 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ وہ یا پھر ان کی سہیلیوں نے جسمانی حملے کے خوف کی وجہ سے سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
سروے میں شامل 59 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پرحملے کا سب سے عمومی طریقہ توہین آمیز،غیر مہذب اور نازیبا الفاظ اور گالی گلوچ کا استعمال تھا۔ 41 فیصد لڑکیوں کا کہنا تھا کہ وہ بالارادہ شرمندہ کرنے کے اقدامات سے متاثر ہوئیں، جب کہ'باڈی شیمنگ‘ اور جنسی تشدد کے خطرات سے متاثر ہوئیں۔ اسی طرح 39 فیصد نسلی اقلیتوں پر حملے، نسلی بدسلوکی اور ایل جی بی ٹی آئی کیو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو ہراساں کرنے کی اوسط شرح بھی بہت زیادہ رہی۔
اعتماد متزلز ل ہوتا ہے
پلان انٹرنیشنل کی سی ای او اینی بریگیٹ البریکسٹن کا کہنا تھا کہ ”اس طرح کے حملے جسمانی نہیں ہوتے لیکن وہ لڑکیوں کی اظہار رائے کی آزادی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں اور ان کو محدود کردیتے ہیں۔
بھارت: خواتین کے خلاف جرائم
بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2018 کے مقابلے 2019 میں 7 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس مدت میں فی ایک لاکھ پر جرائم کی شرح 58.8 فیصد سے بڑھ کر 62.4 فیصد ہوگئی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/S. Pal Chaudhury
روزانہ 88 ریپ
بھارت میں 2019 میں جنسی زیادتی کے 32033 کیسز درج کیے گئے یعنی یومیہ اوسطاً 88 کیسز۔ راجستھان میں سب سے زیادہ 5997 کیسز، اترپردیش میں 3065 اور مدھیا پردیش میں 2485 کیسز درج ہوئے۔ تاہم بیشتر واقعات میں پولیس پر کیس درج نہیں کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
تصویر: imago images/Pacific Press Agency
دلتوں کا اوسط گیارہ فیصد
بھارت کے حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین میں گیارہ فیصد انتہائی پسماندہ طبقات یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھنے والی تھیں۔
تصویر: Getty Images
اپنے ہی دشمن
خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے 30.9 فیصد معاملات میں ملزم قریبی رشتے دار تھے۔ سماجی بدنامی کے خوف سے ایسے بیشتر واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/
کینڈل لائٹ مظاہرے
جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ اگر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس واقعہ اور حکومت کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے ہیں لیکن پھر اگلے واقعہ تک سب کچھ ’شانت‘ ہوجاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Masrat Zahra
نربھیا کیس
دسمبر 2012 کے دہلی اجتماعی جنسی زیادتی کیس کے بعد پورے بھارت میں مظاہرے ہوئے۔ نربھیا کیس کے نام سے مشہور اس واقعہ کے بعد حکومت نے خواتین کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بھی بنائے تاہم مجرموں پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بیٹی بچاو
وزیر اعظم نریندرمودی نے 2015 ’بیٹی بچاو، بیٹی پڑھاو‘ اسکیم شروع کی جس کا مقصد صنفی تناسب کو بہتر بنانا تھا۔ تاہم جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کے بعد ان کے مخالفین طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ’’مودی جی نے تو پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ’بیٹی بچاو‘۔ اب یہ ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیٹی کو خود بچائے۔“
تصویر: Reuters/Sivaram V
قانونی جوڑ توڑ
جنسی زیادتی کے ملزمین کو سزائیں دینے کی شرح میں 2007 کے بعد سے زبردست گراوٹ آئی ہے۔ 2006 میں سزاوں کی شرح 27 فیصد تھی لیکن 2016 میں یہ گھٹ کر 18.9 فیصد رہ گئی۔ ملزمین قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔
تصویر: Reuters
30 فیصد ممبران پارلیمان ملزم
جنسی زیادتی کے ملزم سیاسی رہنماوں کو شا ذ ونادر ہی سزائیں مل پاتی ہیں۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا کے تقریباً 30 فیصد موجودہ اراکین کے خلاف خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اغوا جیسے سنگین الزامات ہیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
وحشیانہ جرم
جنسی درندے کسی بھی عمر کی خاتون کو اپنی درندگی کا شکار بنالیتے ہیں۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں میں چند ماہ کی بچی سے لے کر 80 برس کی بزرگ خواتین تک شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/F. Khan
ہر سطح پر اصلاح کی ضرورت
ماہرین سماجیات کا کہتے ہیں کہ صرف قانون سازی کے ذریعہ جنسی زیادتی کے جرائم کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے سماجی سطح پر بھی بیداری اور نگرانی کا نظام قائم کرنا ہوگا۔
تحریر: جاوید اختر، نئی دہلی
تصویر: Getty Images/N. Seelam
10 تصاویر1 | 10
اینی کہتی ہے کہ لڑکیوں کو آن لائن تشدد کا خود ہی مقابلہ کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور صحت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
فیس بک اور انسٹا گرام کا کہنا ہے کہ وہ بدسلوکی سے متعلق رپورٹوں کی نگرانی کرتے ہیں اور دھمکی آمیز مواد کا پتہ لگانے کے لیے آرٹیفیشل انٹلی جنس یا مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں اور اس پر کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
ٹوئٹر کا بھی کہنا ہے کہ وہ ایسی تکنیک کا استعمال کرتا ہے جو توہین آمیز مواد کی نشاندہی کرسکے اوراسے روک سکے۔
تاہم اس سروے سے پتا چلا کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے والی تکنیک موثر نہیں تھی۔
ج ا / ک م (روئٹرز)
ایشیائی احتجاجی تحریکوں میں خواتین کا قائدانہ کردار
بھارت، افغانستان، ایران اور پاکستان سمیت متعدد ایشائی ممالک میں حکومت مخالف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں کے دوران اب خطرات اور حکومتی دباؤ کے باوجود خواتین صف اول میں کھڑی نظر آتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca
خواتین ’امتیازی سلوک‘ کے قانون کے خلاف
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ’امتیازی سلوک کے حامل‘ نئے شہریت ترمیمی بل نے سول سوسائٹی کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور خواتین ان مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ حکومت کے لیے خواتین کی آواز کو دبانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Javed
’فاشزم‘ کے خلاف جنگ
بھارت میں یونیورسٹی کی طالبات سڑکوں پر نکل چکی ہیں۔ ان کا نعرہ ہے کی سیکولر بھارت میں ’غیرآئینی‘ اقدامات کی مخالفت کی جائے گی۔ یہ مظاہرے صرف شہریت ترمیمی بل ہی نہیں بلکہ فاشسٹ معاشرتی رجحانات، بدانتظامی، مذہبی انتہاپسندی اور پولیس کی بربریت کے خلاف بھی ہیں۔
تصویر: DW/M. Krishnan
حجاب سے لاتعلقی
گزشتہ چند برسوں سے ایران کی قدامت پسند حکومت کو خواتین چیلنج کر رہی ہیں اور ایسے احتجاجی مظاہروں کے دوران حجاب اتارنے کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ’مغرب سے متاثر‘ ایسی خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود خواتین کا مختلف شہروں میں مختلف طریقوں سے احتجاج جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
حکومت کے مدمقابل
سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایرانی خواتین کو پدرانہ دباؤ کا سامنا ہے۔ تہران حکومت نے ہمیشہ ایسے مظاہروں کو دبایا ہے، جہاں مساوی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی بات کی جاتی ہو۔ لیکن تمام تر حکومتی حربے خواتین کے حوصلے پست نہیں کر سکے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Roberson
’اب بہت ہو چکا‘
پاکستان میں جو خواتین مساوی حقوق کی بات کرتی ہیں، زیادہ تر لوگ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ انہیں ’مغربی ایجنٹ‘ اور این جی او مافیا‘ سمجھتا ہے۔ ایسے الزامات کے باوجود حالیہ چند برسوں سے ان خواتین کی آواز معاشرے میں سنی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Raza
بڑی سماجی تحریک کی جانب
ابھی تک پاکستان میں موجود خواتین کے حقوق کی تنظیمیں چائلڈ میرج، مساوی حقوق، گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل جیسے موضوعات پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے سے یہ جمہوریت نواز مظاہروں میں بھی شریک ہو رہی ہیں۔ گزشتہ برس اسٹوڈنٹ یونینز کی بحالی کے لیے ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اس کی مثال ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مغرب نے نظرانداز کیا؟
طالبان اور امریکا افغان جنگ کے خاتمے کے لیے ایک ممکنہ امن ڈیل کے قریب تر ہوتے جا رہے۔ لیکن افغان خواتین پریشان ہیں کہ انہیں حالیہ چند برسوں میں ملنے والی محدود آزادی اور حقوق دوبارہ سلب ہو سکتے ہیں۔