افغانستان کے پاور لفٹنگ فیڈیریشن کے بھرے ہوئے جم میں راشدہ پرہیز نے ٹریک سوٹ پہنے ہوئے 70 کلو گرام وزن اٹھایا ہوا ہے۔ اس چالیس سالہ افغان خاتون نے کئی برس قبل ویٹ لفٹنگ اپنا وزن کم کرنے کے لیے شروع کی تھی۔
اشتہار
اس وقت پرہیز کا وزن 120 کلو گرام تھا۔ اب اس کا وزن 82 کلوگرام ہوگیا ہے۔ اس کی ایک سو کلو وزن اٹھانے کی صلاحیت نے اس تین بچوں کی ماں کو کئی ایوارڈز جیتنے میں مدد دی ہے۔ پرہیز نے قومی اور مقامی مقابلوں میں جیتے گئے ایوارڈز کو ایک پلاسٹک کے لفافے میں سنبھالا ہوا ہے۔ اس کی 22 سالہ بیٹی لیما کا کہنا ہے،’’ ہم ان کی صفائی کرنے میں بہت سست ہیں اس لیے انہیں دیوار پر نہیں سجایا ہوا۔‘‘
ایک ہفتے کے دوران کئی مرتبہ افغانستان کی خواتین کی ویٹ لفٹنگ ٹیم ایک چھوٹے سے کمرے میں جمع ہوتی ہے جہاں وہ اپنے برقعے اتار کر ٹریک سوٹ میں وزن اٹھانے کی پریکٹس کرتی ہیں۔
افغان اولمپک کمیٹی نے سات سال قبل اس فیڈیریشن کا آغاز کیا لیکن یہ خواتین کو اس کھیل کی طرف راغب کرنے میں اتنا کامیاب نہیں ہو سکی۔ قدامت پسند افغان معاشرے میں خواتین کو ان کے گھر والوں کی جانب سے اس کھیل میں حصہ لینے کی حمایت نہیں کی جاتی۔
پاور لفٹنگ ٹیم میں بیس افغان خواتین شامل ہیں جبکہ اسی کھیل کی مردوں کی ٹیم میں ایک سو سے زیادہ کھلاڑی شامل ہیں۔ عورتوں کی ٹیم کی کوچ توتاخیل شاہ پور کا کہنا ہے،’’ میں ان کے ساتھ بیٹیوں جیسا سلوک کرتی ہوں اگر میں ان کے ساتھ سخت رویہ رکھوں گی تو کوئی بھی عورت ٹیم میں نہیں رہے گی۔‘‘ شاہ پور کی رائے میں عورتوں کی ٹیم پر مردوں کی ٹیم کے مقابلے میں سرکار کی جانب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔
کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے شاہ پور انہیں مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے قائل کرتی ہیں حالانکہ ان خواتین کو ماہانہ صرف پندرہ ڈالر تک رقم ملتی ہے۔ سادیہ احمدی ان لڑکیوں میں سب سے کامیاب کھلاڑی ہے۔ یہ ازبکستان، بھارت اور قزاقستان میں اب تک چار سونے کے تمغے جیت چکی ہے۔
جہاں ان خواتین کو بہت سے معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں اکثر کھلاڑیوں کی رائے میں ان کے گھر والے خصوصی طور پر ان کے گھروں کے مرد ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پرہیز کا کہنا ہے،’’ میرے شوہر کو مجھ پر فخر ہے، وہ مجھ سے بہت خوش ہے۔‘‘
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.