لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے کو اجاگر کرنے کے لیے برطانوی شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن ملالہ یوسف زئی کے ساتھ مل کر آواز بلند کر رہے ہیں۔
اشتہار
برطانوی شہزادہ ہیری اور ان کی بیوی میگھن مارکل نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے ساتھ مل کر کورونا کی وبا کے سبب لڑکیوں کی تعلیم کے مسائل کے بارے ميں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک ویڈیو چیٹ میں شریک ہو رہے ہیں۔ برطانوی شاہی جوڑے کے ساتھ یہ ویڈیو چیٹ ملالہ یوسف زئی کے یو ٹیوب چینل 'ملالہ فنڈ‘ اور اس کی ویب سائٹ پر اتوار 11 اکتوبر کو لڑکیوں کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی جائے گی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس ویڈیو چیٹ میں کورونا وبا کے اثرات کے حوالے سے بات بھی شامل ہے کہ کس طرح یہ وبا غیر متناسب انداز میں خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر منفی انداز میں اثر انداز ہو رہی ہے۔ ملالہ فنڈ کی طرف سے کرائی گئی ایک ریسرچ کے مطابق اندازہ ہے کہ کورونا کی وبا کے خاتمے کے بعد بھی ثانوی سطح کی تعلیم سے 20 ملین طالبات محروم رہیں گی۔
پاکستانی وادی سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسف زئی کو لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے آواز بلند کرنے پر پاکستان میں طالبان کی طرف سے فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ انہیں 2014ء میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا تھا اور وہ یہ انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت ہیں۔ ملالہ نے رواں برس جون میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، سیاست اور اکنامکس میں اپنی ڈگری مکمل کی ہے۔
ملالہ کی جدوجہد: نوبل انعام اور دیگر اعزازات
تعلیم کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی اور بھارتی سماجی کارکن کیلاش ستیارتھی نے مشترکہ طور پر نوبل امن انعام وصول کر لیا ہے۔ ملالہ اس سے قبل بھی متعدد بین الاقوامی اعزازات وصول کر چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
نوبل امن انعام اور بہترین لمحات
پاکستان کی ملالہ یوسف زئی اور بھارت کے کیلاش ستیارتھی کو دس دسمبر کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مشترکہ طور پر نوبل امن انعام دے دیا گیا۔ اس سے قبل ملالہ اور ستیارتھی نے کہا تھا کہ وہ دونوں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت
نوبل انعام کی تاریخ میں سترہ سالہ ملالہ یوسف زئی یہ اعزاز حاصل کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت بن گئی ہیں۔ نوبل انعامات دینے کا سلسلہ 1901ء میں شروع ہوا تھا۔ ملالہ کو گزشتہ برس بھی اس انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا مگر انہیں اس اعزاز کا حقدار اس سال ٹھہرایا گیا۔ نوبل کمیٹی کے مطابق ملالہ اور ستیارتھی کو یہ انعام بچوں اور نوجوانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/C. Poppe
ملالہ کے لیے سخاروف انعام
سولہ سالہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو بدھ بیس نومبر کو شٹراس برگ میں یورپی پارلیمان نے انسانی حقوق کے سخاروف انعام سے نوازا۔ اُسے یہ انعام لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اُس کی اُس جرأت مندانہ جدوجہد کے اعتراف میں دیا گیا ہے، جس کے لیے اُس کی جان بھی داؤ پر لگ گئی تھی۔ 9 اکتوبر 2012ء کو طالبان نے وادیء سوات میں ملالہ کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters
ملالہ یورپی پارلیمان میں
ملالہ یوسف زئی بیس نومبر بدھ کے روز شٹراس برگ میں یورپی پارلیمان کے اسپیکر مارٹن شُلز کے ہاتھوں انسانی حقوق کا انعام ’سخاروف پرائز‘ وصول کر رہی ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ روسی منحرف آندرے سخاروف سے موسوم پچاس ہزار یورو مالیت کا یہ انعام یورپی یونین کا اہم ترین اعزاز گردانا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters
اعلیٰ قدر و قیمت کا حامل انعام
یورپی پارلیمان سن 1988ء سے سخاروف پرائز دیتی چلی آ رہی ہے۔ یہ انعام ان شخصیات کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے انسانی حقوق، اقلیتوں کے تحفظ، بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور فکری آزادی کے لیے جدوجہد کی ہو۔ اب تک یہ انعام جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا اور میانمار کی آنگ سان سُوچی جیسی شخصیات کے حصے میں آ چکا ہے۔
تصویر: Reuters
عزم و حوصلے کی علامت
ملالہ کے برمنگھم میں کئی آپریشنز ہوئے۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد وہ اسی برطانوی شہر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ قیام پذیر ہے۔ طالبان کی فائرنگ بھی لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حق کے سلسلے میں ملالہ کی جدوجہد کو ختم نہیں کر سکی۔ ملالہ کی بڑھتی مقبولیت اور شہرت اُس کے پیغام کو اور زیادہ نمایاں کرتی چلی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters
ایک لڑکی پوری دنیا کے سامنے
اپنی 16 ویں سالگرہ پر ملالہ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کیا۔ اپنی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ میں وہ لکھتی ہے:’’اقوام متحدہ کے بڑے ہال میں کھڑے ہونا اور تقریر کرنا ایک ہراساں کر دینے والا تجربہ تھا لیکن میں جانتی تھی کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ میرے سامنے صرف چار سو لوگ بیٹھے تھے لیکن جب میں نے ان کی طرف دیکھا تو یہ تصور کیا کہ میرے سامنے پوری دنیا کے کئی ملین انسان موجود ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa
جدوجہد کا اعتراف انعام کی صورت میں
سخاروف پرائز اُن بہت سے اعزازات میں سے تازہ ترین ہے، جن سے ملالہ کو گزرے مہینوں میں نوازا گیا ہے۔ ابھی اکتوبر کے اوائل میں اس لڑکی کو حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم برطانوی تنظیم "RAW in War" کا آنا پولٹ کوفسکایا انعام دیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اُسے ’ضمیر کی پیامبر‘ کا خطاب دیا۔
تصویر: Reuters
مستقبل کے بڑے منصوبے
ملالہ کی خواہش ہے کہ وہ ایک روز واپس اپنے وطن پاکستان جائے۔ پاکستان میں ملالہ سیاست میں جانا چاہتی ہے اور ہو سکے تو وزیر اعظم بننا چاہتی ہے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار ملالہ نےاپنے ایک انٹرویو کے دوران کیا ہے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
میگھن مارکل اپنے شوہر ہیری کے ساتھ ان دنوں کیلیفورنیا میں مقیم ہیں اور وہ شاہی خاندان کی معاشی مدد کے بغیر خودمختاری حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ میگھن قبل ازیں بھی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بات کرتی رہی ہیں۔ وہ صنفی مساوات پر بھی بات کر چکی ہیں جن میں 2015ء کی اقوام متحدہ کی خواتین کی کانفرنس بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ نے 2011ء میں فیصلہ کیا تھا کہ ہر سال 11 اکتوبر کو لڑکیوں کا بین الاقوامی دن منایا جائے گا تاکہ ان کے حقوق کو اجاگر کیا جا سکے اور دنیا بھر میں لڑکیوں کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان پر بات چیت ہو سکے۔
ملالہ ساڑھے پانچ سال بعد سوات میں
نوبل امن انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی برسوں بعد ہفتہ اکتیس مارچ کو واپس اپنے آبائی شہر سوات پہنچ گئیں، جہاں قریب چھ برس قبل پاکستانی طالبان نے ایک حملے میں انہیں زخمی کر دیا تھا۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
پانچ برس کا طویل انتظار
ملالہ یوسف زئی ہفتہ کے روز صبح ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنے آبائی علاقے سوات پہنچیں۔ اس موقع پر اُن کے والد ضیاءالدین یوسفزئی،والدہ تورپیکئی، دونوں بھائی اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب بھی اُن کے ہمراہ تھیں۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
پرانا کمرہ اور پرانی یادیں
سن 2012 سے برطانیہ میں مقیم ملالہ یوسف زئی ساڑھے پانچ سال بعد جب آبائی شہر میں واقع اپنے گھر پہنچیں تو آبدیدہ ہو گئیں۔ ملالہ کے خاندانی ذرائع کے مطابق ملالہ کے والدین اور بھائی بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے۔ ملالہ یوسف زئی نے کچھ دیر کے لیے اپنے کمرے میں قیام بھی کیا۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
اسکول کا دورہ اور پرانی سہیلیوں سے ملاقات
سوات پہنچنے پر مقامی لوگوں نے ملالہ یوسف زئی کا پرتپاک استقبال کیا اور اُن کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ اپنے آبائی گھر میں کچھ دیر قیام کے بعد ملالہ اپنے اسکول بھی گئیں، جہاں اپنی سہیلیوں سے ملاقات کی اور ان سے باتیں کیں۔ ملالہ کے دورے کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ میڈیا کو بھی دور رکھا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
’واپس ضرور آؤں گی‘
ملالہ اپنے مختصر دورہ سوات کے دوران کیڈٹ کالج بھی گئیں، جہاں پر کالج کے پرنسپل اور دیگر اسٹاف نے ان کا بھر پور استقبال کیا۔ ملالہ یوسف زئی نے کیڈٹ کالج میں طلباء سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے طلباء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا سوات آنے کا پختہ ارادہ ہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس سوات آئیں گی، ’’اس وادی جیسی خوبصورت ترین وادی دنیا میں کہیں بھی نہیں، سوات آکر بہت خوشی محسوس کررہی ہوں‘‘۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
’اپنی ثقافت پر فخر ہے‘
ملالہ یوسف زئی نے کیڈٹ کالج کی وزیٹر بک میں اپنے پیغام میں لکھا کہ ساڑھے پانچ سال بعد اپنے پہلے دورہ سوات کے موقع پر وہ بہت خوش ہیں، ’’ مجھے اپنی سرزمین اور یہاں کی ثقافت پر فخر ہے، کیڈٹ کالج بہت ہی خوبصورت ہے اور میں کالج کے پرنسپل اور اسٹاف کی انتہائی مشکور ہوں۔‘‘
تصویر: DW/Adnan Bacha
’ملالہ کے منتظر تھے‘
لوگوں کی اکثریت ملالہ کی پاکستان آمد سے نہ صرف خوش ہے بلکہ انہیں نیک خواہشات کے ساتھ خوش آمدید بھی کہہ رہی ہے۔ تاہم دوسری طرف کچھ حلقے ملالہ کے دورہ سوات کو بھی تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ سماجی کارکن ڈاکٹر جواد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں ملالہ پر فخر ہے، ملالہ کی جدوجہد نے یہاں پر بچیوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا کی۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
ہمت نہیں ہاری
ملالہ یوسفزئی کو 2012ء میں سوات ہی میں تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں نے ایک مسلح حملے کے دوران سر میں گولی مار کر زخمی کر دیا تھا اور اس حملے کے چند روز بعد ہی انہیں علاج کے لیے برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
ہمت و بہادری کی مثال
پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت ملالہ یوسفزئی کو ہمت، بہادری اور پاکستانی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی علامت قرار دیتے ہوئے انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، جس کا کئی دیگر شواہد کے علاوہ ایک ثبوت انہیں دیا جانے والا امن کا نوبل انعام بھی ہے۔