لیاری: فٹ بال کے متوالوں کی نگری میں ویرانی
7 فروری 2012 لیاری کے کھلاڑیوں کے لیے اب فٹ بال ایک ایسا افسانہ ہے، جو شاید کبھی حقیقت نہیں تھا۔ آج کے پرخطر لیاری میں جہاں منشیات فروشوں کے گروہوں کے درمیان ہونے والی مسلّح چپقلش کی وجہ سے نظامِ زندگی درہم برہم ہے وہی فٹ بال کا بچنا بھی مشکل ہے۔ فٹبال، جس سے لیاری بھر کے نوجوان بہت محبت کرتے ہیں۔
اکرم بلوچ بھی انہیں نوجوانوں میں سے ایک ہیں۔ اکرم کا کہنا ہے، ’’ہم اپنی مدد آپ کے تحت کھیل رہے ہیں۔ سرکاری طور پر اس کھیل کی سرپرستی علاقے میں کہیں نظرنہیں آتی‘‘۔
اکرم اب پاکستان اسٹیل مل کے لیے کھیلتے ہیں جبکہ صمد کی نوکری KESC کی مرہونِ منت ہے۔ اگر یہ ادارے اپنی فٹ بال ٹیمیں نہ چلائیں تو شاید لیاری کے لوگوں کی بے روزگاری میں اور بھی اضافہ ہو۔یہ نوکریاں بھی عارضی ہیں۔ ان کے کوچ شریف امین کے بقول، جب تک ان کے گھٹنوں میں جان ہے یہ نوکریاں برقرار ہیں۔
مگر روزگار سے زیادہ جس چیز کا خدشہ ان میں سے کئی کے دل میں ہے وہ ہے منشیات۔ شریف امین کا کہنا ہے کہ اگر سرکار کی بے اعتنائی یوں ہی چلتی رہی تو پھر ان نوجوانوں کیلئے بے راہ روی کا ہی راستہ رہ جاتا ہے۔
"حکومت اگر سرپرستی کرے تو حالات بہت بہتر ہوسکتے ہیں۔ برازیل، اٹلی سے کوچ اگر یہاں بلوائے جائےں تو یہاں سے بہت ٹیلنٹ نکل سکتا ہے‘‘۔ ان کے مطابق اگر حکومت صرف بیس تا پچیس نوجوانوں کی سرپرستی بھی کر لے تو لیاری والے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔
لیاری کے سابق فٹ بالر اور پاکستان کی فٹبال ٹیم میں صفِ اول کے سابق کھلاڑی عبد العزیز کا کہنا ہے کہ جس طرح چین نے 25سالہ فٹ بال پروگرام بنایا ہے اسی طرز پراگر حکومتِ پاکستان بھی ایک پروگرام ترتیب دے تو فٹ بال میں ترقی ہوسکتی ہے۔ ان کے بقول بلاشبہ ملک بھر میں ٹیلینٹ موجود ہے جبکہ لیاری فٹ بال کا گڑھ ہے۔
بقول شریف امین کے، "لیاری کی شہرت خراب ہے، اسی لیے یہاں لوگ نہیں آتے، اگر آئیں تو انہیں فٹ بال کی محبت سے بھرا لیاری ملے، اگر اس وقت تک یہاں فٹ بال بچے تو‘‘۔
لیاری کے محمدن کلب کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے سامنے ہی کھیل کا ایک میدان ہے جو نشہ کرنے والوں اور زمین کے قبضہ گیروں سے بچا ہوا ہے۔ کراچی بھر میں کھیل کے میدان انہی وجوہات کے باعث کم ہونے لگے ہیں۔ بہت سے نوجوانوں کے لیے سڑکیں ہی میدانوں کا کردار ادا کرتی ہیں ۔
رپورٹ : رفعت سعید/ کراچی
ادارت : شادی خان سیف