لیبارٹری میں ’بنایا گیا گوشت‘، ذائقہ بالکل مرغی جسیا
10 جولائی 2019'میمفس مِیٹ‘ نامی کمپنی کیلیفورنیا میں قائم ہے۔ اس کا شمار دنیا کی ان بڑھتی ہوئی کمپنیوں میں ہوتا ہے، جو خلیات کی مدد سے گوشت لیبارٹریوں میں تیار کرتی ہیں۔ اس گوشت کو کلچرڈ مِیٹ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ لیبارٹری میں گوشت کی تیاری کے لیے خلیات جانور کے جسم سے حاصل کیے جاتے ہیں اور ان خلیات کی بڑھوتری کے لیے انہیں اضافی اجزا فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس طرح خلیات پرورش پاتے ہوئے گوشت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
ایسی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح روایتی گوشت کا متبادل تیار کیا جائے گا۔ اس کے لیے نہ تو جانوروں کو نقصان پہنچتا ہے اور نہ ہی ماحول کو۔
تاہم ابھی وہ وقت بہت دور ہے، جب مارکیٹ میں لیبارٹری میں تیارہ کردہ گوشت فروخت کیا جا سکے۔ ابھی نہ صرف عوام بلکہ جانوروں پالنے والے بھی اس کے شدید مخالف ہیں۔ اوما والیٹی سابق کارڈیالوجسٹ ہیں اور سن دو ہزار پندرہ میں قائم ہونے والی میمفس مِیٹ نامی کمپنی کے شریک بانی بھی۔ ان کا کہنا ہے، ''آخر کار آپ آئندہ نسلوں کے لیے گوشت کھانے کے انتخاب کی بات کر رہے ہیں اور وہ بھی اس دنیا پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر۔‘‘
ان کی کمپنی خلیات کی مدد سے بطخ اور گائے گا گوشت بھی تیار کرتی ہے۔ اس کمپنی میں نہ صرف کارگل اور ٹائسن فوڈ جیسے بڑے اداروں بلکہ ارب پتی رچرڈ برینسن اور بل گیٹس نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
جون میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار چالیس تک دنیا بھر میں استعمال ہونے والے مجموعی گوشت کا چالیس فیصد حصہ کلچرڈ میٹ پر مشتمل ہو گا۔
دو برس پہلے ایک اسرائیلی فرم نے بھی چکن کا گوشت مصنوعی طریقے سے پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کر لیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ آئندہ پانچ برسوں کے اندر اندر اگائے گئے چکن والے برگر مارکیٹ میں دستیاب ہوں گے۔
سپر میٹ نامی کمپنی کی ایک خاتون ترجمان شیر فریڈمین کا اس بارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ ایک بہترین حل ہے کیوں کہ اس طرح آپ کسی کو اپنی عادتیں تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کر رہے۔ آپ لوگوں کو وہی پراڈکٹ دے رہے ہیں، جو وہ صدیوں سے کھاتے آ رہے ہیں۔‘‘
اس کمپنی کا مقصد مرغی کے خلیے سے ایسے چکن بریسٹ تیار کرنا ہے، جنہیں ایک 'میٹ اوون‘ کی طرح ایک مشین میں تیار کیا جا سکے۔ ایسے اوون یا ایسی مشینیں گھروں پر بھی رکھی جا سکتی ہیں، سپر مارکیٹوں میں بھی اور ریستورانوں میں بھی۔
لوگ ایسی مشینوں میں ایک کیپسول رکھا کریں گے اور یہ کیپسول بڑھتے ہوئے گوشت کی شکل اختیار کر لیا کرے گا۔
امریکا میں 'سیرم یا خوناب‘ کی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جبکہ اسرائیل کی کمپنی ہبریو یونیورسٹی کے پروفیسر یاکووف ناہمیاس کی وہ ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے، جو انہوں نے خلیات سے متعلق سن دو ہزار چھ میں متعارف کروائی تھی۔
چکن اگانے کا خیال نیا نہیں
دنیا میں چکن اگانے کا خیال نیا نہیں ہے۔ تقریباﹰ ایک صدی پہلے بھی یہ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں موجود تھا۔ 1932ء میں ونسٹن چرچل نے اپنے ایک مضمون ''ففٹی ایئرز ہینس‘‘ میں لکھا تھا، ''ہمیں اس فضول بات سے پرہیز کرنا ہو گا کہ ہم صرف بریسٹ یا پھر ونگز کھانے کے لیے مکمل چکن کو ضائع کریں۔ ہمیں کسی طریقے سے یہ مختلف حصے علیحدہ علیحدہ اگانے چاہییں۔‘‘
اندازوں کے مطابق سطح زمین کا نصف قابل استعمال حصہ جانوروں کو پالنے یا پھر ان کے لیے خوراک اگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ انسانوں کو درکار خوراک اگانے کے لیے زمین کا صرف چار فیصد قابل استعمال حصہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔
عام گوشت کے مقابلے میں مصنوعی طریقے سے حاصل ہونے والے گوشت میں ننانوے فیصد کم زمین استعمال ہوتی ہے جبکہ گوشت کے حصول میں ضرر رساں گیسوں کا اخراج بھی چھیانوے فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ مصنوعی گوشت چین اور بھارت جیسے ان ممالک کی ضروریات پوری کر سکتا ہے، جہاں آبادی انتہائی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق تمام تر کامیاب تجربات کے باوجود ابھی یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ عوام اسے کتنی جلدی قبول کریں گے۔ دوسری جانب ایسی کمپنیوں کو فی الحال بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور ہر تاجر اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں ہے۔