لیبیا اور ترکی کے درمیان سمجھوتے، بحیرہ روم کے خطے میں تناؤ
30 نومبر 2019
ترکی نے لیبیا کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ سمندری نگرانی اور فوجی تعاون کے دو سمجھوتے طے کیے ہیں۔ ان سمجھوتوں سے بحیرہ روم کے بعض ممالک میں تناؤ پیدا ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
اشتہار
ان سمجھوتوں میں یہ طے پایا گیا ہے کہ طرابلس اور انقرہ کی حکومتیں دو طرفہ فوجی تعاون میں اضافہ کریں گی اور سمندری سرحدی نگرانی کے عمل کو تیز کیا جائے گا۔ فوجی تعاون کی ڈیل سے بحیرہ روم کے بعض ممالک نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ ترکی شمالی افریقی دوست ممالک کے ساتھ اپنے روابط کو مستحکم کر کے توانائی کے ذخائر تک پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے۔
یہ سمجھوتا اس لیے بھی اہم ہے کہ لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کے سربراہ وزیراعظم فائز السراج کو بین الاقوامی حمایت کی اشد ضرورت تھی کیونکہ پچھلے آٹھ ماہ سے انہیں داخلی انتشار کا سامنا ہے۔ رواں برس اپریل سے جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی نے دارالحکومت طرابلس پر قبضہ کرنے کے لیے چڑھائی کر رکھی ہے۔ بظاہر ابھی تک حفتر کی خواہش ادھوری ہے کیونکہ ان کی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ ہفتر کو سعودی عرب اور مصر جیسے ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ ترکی ان کی خواہشات کے برعکس فائز السراج کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیبیا میں قطر بھی ترکی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے کمیونیکشن ڈائریکٹر فرحت دین التون نے رواں ہفتے کے دوران ایک ٹویٹ میں واضح کیا تھا کہ ترکی اور لیبیا کے درمیان فوجی تعاون بڑھنے سے لیبیائی عوام کو جنگی خطرات سے بچاؤ حاصل ہو گا اور اُن کا ملک کے اندر سلامتی کی صورت حال بہتر ہو گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والی فوجی ڈیل تو بدھ ستائیس نومبر کو طے پائی تھی لیکن تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔
حکومت نواز اخبار روزنامہ صباح کے مطابق اب لیبیا کے ساتھ ڈیل طے ہونے پر اُس کی سمندری سرحد جنوب مغرب کی سمت بڑھ گئی ہے۔ اس تناظر میں یونان کے وزیرخارجہ نکوس ڈینڈیاس نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اخبار کی سوچ کو لغو قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اخبار یہ بھول گیا ہے کہ ترکی کے جنوب مغرب ہی میں یونانی جزیرہ کریٹ ہے اور اور اس کو سرحدی توسیع کے بیان میں واضح نہیں کیا گیا۔
ترکی اور قبرص کے درمیان بھی تنازعات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں ترکی کا جزیرہ قبرص کے قریب تیل و گیس کی تلاش نے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کو بڑھا دیا ہے۔ اس باعث یورپی یونین بھی اس تنازعے میں شامل ہو چکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ترکی کی توانائی کی ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں اور اس کے لیے وہ اپنے تعلقات کو وسعت دے رہا ہے۔ یہ کوششیں مختلف ہمسایہ ملکوں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہیں۔
تھوماس ایلینسن ⁄ محمود حسین (ع ح ⁄ ا ا)
لیبیا: پانی کا بحران شدت اختیار کرتا ہوا
تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا کبھی شمالی افریقہ کا امیر ترین ملک تھا۔ لیکن اس ملک میں شروع ہونے والی خانہ جنگی نے اسے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے بڑے حصوں میں پینے کے پانی کی قلت ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Ahmed
بنیادی سہولیات کی کمی
لیبیا میں پانی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ خاص طور پر ملک کے مغربی حصوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ خانہ جنگی کی وجہ سے اس حصے میں پانی فراہم کرنے والے 149 پائپوں میں سے 101 تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
ماڈرن واٹر پائپ لائن سسٹم میں خرابی
لیبیا بنیادی طور پر ایک صحرائی علاقہ ہے۔ سابق آمر معمر قذافی نے اسی کی دہائی میں ملک کے زیادہ تر حصوں میں پائپ لائن سسٹم بچھایا تھا، جسے ’گریٹ مین میڈ ریور‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لیبیا کی ستر فیصد آبادی کو صاف پانی اسی نظام کے تحت فراہم کیا جاتا تھا۔ لیکن قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے یہ نظام زوال کا شکار ہے۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
خانہ جنگی اور افراتفری
سن دو ہزار گیارہ میں قذافی کو زوال کے بعد قتل کر دیا گیا تھا لیکن تب سے یہ ملک بدامنی کا شکار ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ طرابلس حکومت کمزور ہے اور ملک کے سبھی حصوں کو کنٹرول نہیں کرتی۔ دوسری جانب جنرل خلیفہ حفتر کی فوج ملک کے تمام بڑے مشرقی حصوں پر قابض ہے۔
تصویر: AFP/M. Turkia
نشانہ طرابلس ہے
خلیفہ حفتر کی فوج (ایل این اے) مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے واٹر پائپ لائن کو استعمال کرتی ہے۔ مئی میں خلیفہ حفتر کے حامی جنگجوؤں نے واٹر سپلائی اسٹیشن پر قبضہ کرتے ہوئے ملازمین کو پانی بند کرنے پر مجبور کیا۔ ایک قیدی کی رہائی کے لیے دو دن طرابلس کا پانی بند رکھا گیا۔
تصویر: Reuters/H. Ahmed
پانی بطور جنگی ہتھیار
یہ صرف مسلح گروپ ہی نہیں ہیں جو پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں، جو پائپوں پر لگے تانبے کے ویل ہیڈز چرا لیتے ہیں تاکہ انہیں فروخت کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ نے لیبیا کے فریقین کو خبردار کر رکھاہے کہ پانی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال نہ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
صحت کے مسائل
یونیسیف کے ترجمان مصطفیٰ عمر کے مطابق اگر ان مسائل کا کوئی حل نہ ڈھونڈا گیا تو مستقبل میں لیبیا کے چالیس لاکھ باشندوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی ختم ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ہیپاٹائٹس اے اور ہیضے جیسی وبائیں پھوٹ سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
پانی بھی قابل استعمال نہیں
لیبیا کے بہت سے حصوں میں آنے والا پانی بھی آلودہ ہے۔ بیکڑیا یا نمک کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ استعمال کے قابل نہیں۔ اکثر اس پانی کو پینے سے لوگ مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔