1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا اور یورپی یونین کے درمیان ویزہ معاملات طے

28 مارچ 2010

اتوار کو لیبیا نے اپنے بعض شہریوں پر شینگن ویزوں کے اجراء کی پابندی ختم کئے جانےکے یورپی یونین کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ فریقین کے درمیان اس معاہدے کے بعد سفارتی سطح پر پیدا شدہ کشیدگی کم ہو گئی ہے۔

لیبیا کے رہنما قدافی اطالوی وزیراعظم بیرلسکونی کے ہمراہتصویر: picture-alliance/ dpa

لیبیا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین کے اس فیصلے کے بعد لیبیا بھی یورپی شہریوں کے لئے ویزوں کی پابندی ختم کر رہا ہے۔ شینگن ممالک میں سفری اجازت نامے پر پابندی کے بعد رواں برس جنوری میں لیبیا نے بھی ان ممالک کے شہریوں کے لئے ویزوں کا اجراء روک دیا تھا۔

ویزوں پر دوطرفہ پابندی کے معاملے کی ابتداء اس وقت ہوئی تھی، جب جنوری میں سوئٹزرلینڈ نے 180 لیبیائی باشندوں کو ملک میں داخلے سے روک دیا تھا اور ان کے نام بلیک لسٹ میں شامل کر دیے تھے۔ بلیک لسٹ کئے جانے والے افراد میں لیبیا کے رہنما معمر قدافی بھی شامل تھے، جس کے بعد لیبیا نے بھی شینگن ممالک کے افراد کو ویزوں کا اجراء بند کر دیا تھا۔

لیبیا میں سوئس سفارت خانے کے باہر لوگوں کا احتجاجتصویر: AP

یورپی یونین کی طرف سے ہفتے کو ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ اس بلیک لسٹ کو کالعدم قرار دے رہی ہے اور ’’اس سلسلے میں لیبیا کے باشندوں کو پیش آنے والی مشکلات پر رنج رکھتی ہے۔‘‘

یورپی یونین نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ اسے امید ہے کہ آئندہ اس طرح کے معاملات پیش نہیں آئیں گے اور باہمی تعلقات کی بہتری کے لئے کام کریں گے۔

لیبیا کی وزارت خارجہ نے یورپی یونین کے بیان کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اپنے فوری ردعمل میں کہا کہ سوئٹزرلینڈ کے اس قدم کے جواب میں یورپی یونین کی وضاحت اور احترام قابل ستائش ہے۔

سوئٹزرلینڈ اور لیبیا کے درمیان سفارتی کشیدگی کی ابتداء اس وقت ہوئی تھی، جب 2008 ء میں سوئٹزرلینڈ نے قدافی کے بیٹے ہنیبال کو حراست میں لیا تھا۔ بعد میں ان پر لگائے گئے الزام ختم کردئے گئے تھے۔ اسی دوران لیبیا نے دو سوئس باشندوں کو سفری اجازت ناموں میں خرابی کے الزامات میں گرفتار کر لیا تھا۔ اس کے بعد سوئٹزر لینڈ کی جانب سے شینگن ویزوں کے لئے ایک بلیک لسٹ جاری کی گئی تھی، جس سے یورپی یونین کو فکر میں مبتلا کردیا تھا۔ شینگن معاہدے کے تحت کوئی ممبر ملک اس بلیک لسٹ میں کوئی نام صرف اسی صورت میں شامل کرسکتا ہے، جب معاملہ سلامتی خدشات کا ہو نہ کہ سیاسی نوعیت کا۔

سوئٹزرلینڈ کے اس اقدام پر سب سے زیادہ تشویش اٹلی کوتھی کیونکہ اس اقدام سے اٹلی کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچ رہا تھا۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : ندیم گِل

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں