1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہلیبیا

’لیبیا تارکین وطن کے ساتھ ناروا سلوک کا سلسلہ بند کرے‘

13 جون 2023

اقوام متحدہ نے لیبیا پر زور دیا کہ وہ تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے ساتھ عزت کا برتاؤ کرے۔ اس عالمی ادارے نے تارکین وطن کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک، ان کی نظر بندیوں اور بڑے پیمانے پر بے دخلی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

Libyen Geflüchtete
تصویر: Hazem Ahmed/ASSOCIATED PRESS/picture alliance

جنگ زدہ شمالی افریقی ملک لیبیا کو تارکین وطن کے بحران سے نمٹنے اور مہاجرین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے تناظر میں باقاعدگی سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے الزام لگایا ہے کہ لیبیا میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں اور سرکاری حراستی مراکز کے اندر ان پناہ کے متلاشی یا ترک وطن کرنے کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ خوفناک سلوک کیا جاتا ہے۔

لیبیا میں اقوام متحدہ کے سپورٹ مشن نے ایک بیان میں کہا ہے، ''لیبیائی حکام نے ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو سڑکوں اور ان کے گھروں سے یا مبینہ طور پر اسمگلروں کے کیمپوں اور گوداموں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا ہے۔‘‘

 اس یو این مشن کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے،''حاملہ خواتین اور بچوں سمیت بہت سے لوگوں کو انتہا سے زیادہ بھری ہوئیں جیلوں اور غیر صحت بخش حالات میں رکھا جاتا ہے۔‘‘

لیبیا  میں اقوام متحدہ کے سپورٹ مشن نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور امدادی تنظیموں کو فوری تحفظ کی ضرورت والے قیدیوں تک بلا روک ٹوک رسائی فراہم کی جائے۔

اپریل 2023 ء میں لیبیا کے ساحل تک پہنچنے والے چار سو سے زائد پاکستانی، بنگلہ دیشی، مصری، سرلنکن اور صومالیہ کے مہاجرینتصویر: Salvatore Cavalli/AP/picture alliance

لیبیا ان تارکین وطن کے لیے ایک اہم 'لانچ پیڈ‘ ہے، جو زیادہ تر سب صحارا افریقہ کے تنازعات اور غربت سے بھاگ رہے ہیں۔ یہ مہاجرین براستہ لیبیا بحیرہ روم  عبور کرتے ہوئے اطالوی ساحلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق لیبیا چھ لاکھ سے زیادہ تارکین وطن کی میزبانی کرتا ہے اور زیادہ تر مہاجرین ملک کی غیر محفوظ جنوبی سرحد میں داخل ہونے کے لیے وسیع ریگستانوں کو عبور کر کے غیر قانونی طور پر یہاں داخل ہوتے ہیں۔

پناہ گزینوں کی کشتی پر فائرنگ

03:01

This browser does not support the video element.

 سن 2011  میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے خاتمے اور طاقتور آمر حاکم  معمر قذافی کو ہلاک کرنے کے بعد ملک کئی سالوں تک افراتفری میں ڈوبا رہا، جس کے سبب لیبیا  انسانی اسمگلروں کے لیے ایک زرخیز زمین بن گیا۔ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں پر بھتہ خوری سے لے کر انسانوں کو غلام بنانے تک کی زیادتیوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

سی برڈ نامی ہوائی جہاز سے جرمن رضا کار بحیرہ روم کے مختلف علاقوں کی طرف آنے والے مہاجرین کی نگرانی کرتے ہوئے تصویر: Renata Brito/AP Photo/picture alliance

یہ جنگ زدہ ملک اب  دو حریف سیاسی انتظامیہ کے درمیان تقسیم ہے۔ ایک  مغرب میں دارالحکومت طرابلس میں واقع ہے اور دوسری ملک کے مشرق میں۔ حریف انتظامیہ کی فورسز اکثر ایسے محلوں پر چھاپے مارتی ہیں جہاں تارکین وطن کے گھر ہیں۔ ساحل سے تارکین وطن کو لے جانے والے کشتیوں کو لیبیا کی بحریہ کی طرف سے باقاعدگی سے روکا جاتا ہے، یہاں تک کہ بین الاقوامی پانیوں میں ان جہازوں پر سوار افراد کو زبردستی واپس لا کر حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق 2023 ء کے آغاز سے اب تک  سات ہزار سے زائد تارکین وطن کو سمندر میں روک کر لیبیا واپس بھیجا گیا۔ مزید برآں ایجنسی نے کہا کہ یورپ جانے کی کوشش میں 600 سے زیادہ افراد ڈوب کر ہلاک ہوئے اور 368 افراد لاپتہ ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین کے مطابق اسی عرصے کے دوران  پچاس ہزار سے زیادہ تارکین وطن اٹلی کے ساحل پر پہنچے، جن میں سے بائیس ہزار سے زیادہ کا تعلق لیبیا سے تھا۔

ک م/ ا ا (اے پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں