لیبیا: تین ہزار سے زائد غیر قانونی مہاجرین گرفتار کر لیے گئے
صائمہ حیدر
8 اکتوبر 2017
لیبیا میں سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ متحدہ حکومت کی اتحادی فورسز نے انسانی اسمگلنگ کے گڑھ صبراتہ میں تین ہزار سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کر لیا ہے۔
اشتہار
لیبیا کی متحدہ حکومت کی اتحادی فورس کے کمانڈر باسم غربلی نے بتایا،’’ہم نے عرب، ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تین ہزار ایک سو پچاس تارکین وطن کو گرفتار کیا ہے۔‘‘
باسم کی فورس نے جمعے کے روز بتایا تھا کہ اُس نے تین ہفتے کی مسلسل لڑائی کے بعد ایک حریف ملیشیا کو شہر سے باہر دھکیل دیا ہے۔ اس ملیشیا کی قیادت انسانی اسمگلنگ کے ایک سابقہ نیٹ ورک کا سربراہ کر رہا تھا۔
لیبیا کی متحدہ حکومت کے وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق فورسز اور ملیشیا کے مابین جھڑپوں میں انتالیس افراد ہلاک جبکہ 300 زخمی ہوئے ہیں۔
اس لڑائی میں صبراتہ کے اسکولوں اور ہسپتالوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ علاوہ ازیں یونیسکو کی جانب سے ثقافتی ورثہ قرار دیے گئے آثار قدیمہ بھی محفوظ نہیں رہے۔
سن 2011 میں لیبیا میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے حمایت یافتہ انقلاب میں طویل عرصے تک مسند اقتدار پر رہنے والے آمر معمر قذافی کی معزولی اور پھر ہلاکت کے بعد یہ شہر چھپے ہوئے غیر قانونی مہاجرین کا مرکز بن گیا، جو یورپ جانے کے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
بعض مقامی انسانی اسمگلرز نے سکیورٹی کی ناگفتہ بہ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر کے پورے پورے حصوں کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے جہاں سے وہ روزانہ درجنوں مہاجرین کو کشتیوں پر بٹھا کر یورپ کے سمندری سفر پر روانہ کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ لیبیا کی مختلف ساحلی پٹیاں اس وقت انسانی اسمگلنگ کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ غیر معروف اور انتہائی کم استعمال ہونے والے ساحلی مقامات سے انسانی اسمگلر تارکین وطن کو کمزور اور پلاسٹک کی کشتیوں پر سوار کر کے اٹلی، یونان اور اسپین کے ساحلی مقامات اور جزائر تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سمندر میں ڈوبتے ابھرتے تارکینِ وطن
گزشتہ برس بحیرہٴ روم میں چالیس ہزار تارکینِ وطن کو ساحلی پولیس نے نہیں بلکہ اُن تجارتی بحری جہازوں نے بچایا، جو یورپی یونین کا امدادی مشن مارے نوسٹرم ختم ہونے کے بعد سے باقاعدہ تلاش کر کے تارکینِ وطن کی جانیں بچاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
شکر ہے، بچ گئے
ربڑ کی یہ کشتی اور اِس میں سوار تارکینِ وطن عنقریب ’او او سی جیگوار‘ نامی اس پرائیویٹ بحری تجارتی جہاز کی حفاظت میں ہوں گے، جو عام طور پر بحیرہٴ روم میں واقع تیل کے کنووں تک اَشیائے ضرورت پہنچاتا ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
طوفانی لہروں میں سہارا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ’جیگوار‘ جیسے بحری جہازوں کو سمندر کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے تارکینِ وطن کو بچانا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کے امدادی مشن ’ٹریٹون‘ کے تحت محض چند ایک امدادی بحری جہاز ہی اس کام میں مصروف ہیں اور وہ بھی اٹلی کے ساحلوں سے زیادہ سے زیادہ چھپن کلومیٹر تک گشت کرتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
ایک اور بے سہارا کشتی
جرمن جہاز راں کرسٹوفر اوپیلوک کے دو بحری جہاز، جو عام طور پر سمندر میں بنے آئل پلیٹ فارمز کو اَشیائے ضرورت فراہم کرتے ہیں، گزشتہ سال دسمبر سے لے کر اب تک پندرہ سو تارکینِ وطن کی جانیں بچا چکے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی تھے، جنہیں وہ نہ بچا سکے۔ ’جیگوار‘ نامی جہاز کا اس الٹی ہوئی کشتی سے سامنا اپریل کے وسط میں ہوا تھا۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
اب سامان میں کمبل بھی
اوپیلوک کے بحری جہاز عام طور پر مالٹا میں لنگر اندز ہوتے ہیں اور وہاں سے لیبیا کے ساحلوں کے قریب واقع آئل پلیٹ فارمز کو ہر قسم کا مطلوبہ سامان پہنچاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جہاز اپنے ساتھ اضافی طور پر اَشیائے خوراک، کمبل اور ادویات بھی رکھنے لگے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
سلامتی کی منزل ابھی دور
’جیگوار‘ کے عرشے پر پہنچ جانے کا مطلب بھی مکمل سلامتی کی منزل تک پہنچ جانا نہیں ہوتا۔ جہاز راں اوپیلوک کے مطابق ’بہت سے تارکینِ وطن، جنہیں ہم پانی سے نکالتے ہیں، اُن کے جسم سرد پانی کی وجہ سے اتنے زیادہ متاثر ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ عرشے پر پہنچنے کے چند منٹ کے اندر اندر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
غرقابی سے کچھ پہلے
تجارتی بحری جہازوں کے کپتان اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ سمندر میں پھنسے ہوئے افراد کی مدد کریں اور اُن کی جان بچائیں۔ ایسے میں تارکینِ وطن کو لانے والے بحری جہاز جان بوجھ کر اُن روٹس پر سفر کرتے ہیں، جنہیں تجارتی بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔ تارکینِ وطن سے بھری ہوئی یہ کشتی بس غرق ہونے ہی والی ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
امدادی مشن میں ایک ایک لمحہ قیمتی
... اور کشتی غرق ہونے کے چند ہی لمحے بعد تارکینِ وطن کھلے سمندر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر ’جیگوار‘ بحری جہاز ڈوبتے ہوئے ان انسانوں کی جانیں بچانے اور اٹلی کی ساحلی پولیس کو مطلع کرنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی کبھی ایک امدادی مشن مکمل ہونے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔