1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا: جنگی دعوے متضاد لیکن انسانی المیے میں اضافہ

11 اگست 2011

لیبیا کی لڑائی جہاں متضاد جنگی الزامات کا تصادم ہے اور گرد آلود کھیت میدان کار زار بن چکے ہیں، اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تنازعے کے باعث وہاں انسانی المیہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔

تصویر: dapd

ساحلی شہر زلیتن میں منگل کے روز صحافیوں کو نیٹو کی بمباری میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں دکھانے کے لیے ایک ہسپتال کے مردہ خانے میں لے جایا گیا۔ چھوٹے سے مردہ خانے میں صحافیوں اور سرکاری عہدیداروں کی بھیڑ اور لاشوں سے اٹھنے والی بو کی وجہ سے سانس لینا محال تھا۔ مگر جب طبی عملے نے لاشوں کے بیگ کھولے تو منظر اور بھی بھیانک تھا: خون اور مٹی میں لتھڑے ہوئے انسانی اعضاء، ایک لاش کا پاؤں دوسرے کے پیٹ میں گھسا ہوا اور ایک شیر خوار بچے کی لاش بھی۔

حکومتی عہدیداروں کا دعوٰی ہے کہ ماجر گاؤں میں ہونے والے فضائی حملوں میں 85 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 33 بچے اور 32 خواتین بھی شامل تھیں۔

یہ ہے وہ تصویر اُس لیبیا کی، جہاں مغربی طاقتیں چار ماہ سے زائد عرصے سے جاری اپنے فضائی حملوں کے ذریعے غیر منظم باغیوں کو لیبیا کے طویل عرصے سے برسر اقتدار رہنما معمر قذافی کی وفادار فوج کو شکست دینے کے لیے مدد فراہم کر رہی ہیں۔

لیبیا میں مغربی طاقتیں غیر منظم باغیوں کو لیبیا کے طویل عرصے سے برسر اقتدار رہنما معمر قذافی کی وفادار فوج کو شکست دینے کے لیے مدد فراہم کر رہی ہیںتصویر: AP

گزشتہ منگل کو قذافی حکومت کی طرف سے نیٹو کی بمباری میں درجنوں عام شہریوں کی ہلاکت سے متعلق الزامات سے مغربی دفاعی اتحاد کے لیبیا مشن کو سیاسی طور پر مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس فضائی کارروائی کی حمایت میں پہلے ہی تیزی سے کمی ہو رہی ہے اور اس کا ابھی کوئی واضح اختتام بھی نظر نہیں آتا۔

علاقے کے مکین فراج محمد نے کہا، ’’صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں کو کیوں نشانہ بنایا گیا‘‘۔ فراج محمد جیسے لوگ لیبیا میں اٹلی کے نوآبادیاتی تجربے اور کئی دہائیوں تک مغربی دنیا کی لیبیا میں تیل کی دولت میں دلچسپی سے آگاہ ہیں اور تازہ ہلاکتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ غیر ملکی مداخلت کا کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکلے گا۔

فضائی بمباری کے بعد جب صحافی علاقے میں پہنچے تو کھیتوں میں بنے گھروں کی پختہ دیواریں ڈھے چکی تھیں اور اندر ملبے میں کمبل، گدے اور بچوں کی درسی کتابیں تو موجود تھیں مگر وہاں فوجی ہتھیاروں کی موجودگی کے کوئی آثار دکھائی نہ دیے۔

اگلے روز حملوں کی جگہ دیکھنے کے لیے آئے ہوئے لوگوں کے بیانات میں تضادات پائے جاتے تھے۔ کچھ ہمسایوں کو مرنے والوں کے نام یاد نہیں تھے جبکہ بعض افراد ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں ابہام کا شکار دکھائی دیے۔ شاید لوگ عربی ترجمانوں کے ذریعے کیے گئے سوالات کو سمجھ نہ سکے تھے یا پھر وہ اپنے رشتہ دار اور ہمسایوں کی موت کے باعث غم سے نڈھال ہو چکے تھے۔

صحافیوں کو صرف تیس کے قریب لاشیں دکھائی گئیں اور انہیں بتایا گیا کہ باقی لاشیں طرابلس بھیج دی گئی ہیں یا پھر ابھی تک ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ اگرچہ نیٹو کا کہنا ہے کہ حملے میں شہریوں کی ہلاکت کا کوئی ثبوت نہیں ہے تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد کے لیے یہ تصدیق کرنا تقریباﹰ ناممکن ہے کہ اس کے فضائی حملوں میں کون مارا گیا ہے۔

قذافی حکومت کی جانب سے نیٹو کی بمباری میں عام شہریوں کی ہلاکت کا الزام لگایا جا رہا ہےتصویر: dapd

مبہم عسکری صورت حال

گزشتہ منگل کے روز لیبیا میں انسانی ہلاکتوں سے متعلق پایا جانے والا ابہام اس جنگ کے بہت مبہم ہونے کی صرف ایک مثال ہے، جس پر نیٹو طاقتوں نے اسرار کا پردہ تانا ہوا ہے اور قذافی حکومت اسے اسلام کے خلاف صلیبی جنگ قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

باغیوں کی جانب سے آئے روز نئے شہروں پر قبضے کے دعوے کیے جاتے ہیں جبکہ طرابلس حکومت ایسے شہروں کو تاحال اپنے زیر قبضہ قرار دیتی ہے۔ لیبیا کی حکومت نیٹو پر خوراک اور بجلی کی فراہمی بند کرنے کا الزام بھی لگاتی ہے جبکہ نیٹو کا دعوٰی ہے کہ قذافی لیبیا کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔ صحافیوں کے لیے بھی اطراف کے ایسے دعووں کی تصدیق کرنا ناممکن ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ لیبیا کے اس خونریز تنازعے سے پیدا ہونے والا انسانی المیہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں