لیبیا: جنگی سردار خلیفہ حفتر کا صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان
17 نومبر 2021
خلیفہ حفتر کو تفرقہ پیدا کرنے والی شخصیت کہاجا تا ہے جبکہ وہ جو جنگی جرائم میں بھی مطلوب ہیں۔ انہوں نے ملک میں امن بحال کرنے کا عہد کیا ہے اور صدارتی انتخاب میں ان کا مقابلہ معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام سے ہو سکتا ہے۔
اشتہار
لیبیا کے سابق فوجی کمانڈر خلیفہ حفتر نے 16 نومبر منگل کے روز اعلان کیا وہ بھی آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار میدان میں اترنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیبیا میں 24 دسمبر کو ہونے والے انتخابات کو ایک دہائی سے جاری خانہ جنگی اور سیاسی انتشار کے خاتمے کی آخری کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
خلیفہ حفتر حال ہی میں اپنے فوجی عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے، جس کے بعد سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ انتخابات میں صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں۔
حفتر نے کیا کہا؟
ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں جنگی سردار خلیفہ حفتر نے کہا کہ نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے نتیجے میں طاقتور حکمراں معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک جس انتشارسے دوچار ہے، اس بحران کو صرف جمہوری انتخابات ہی ختم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا اگر وہ کامیاب ہوئے تو ''مفاہمت، امن اور تعمیر کا ایک نیا راستہ شروع کریں گے۔''
لیبیا میں خلیفہ حفتر کو تفرقہ پیدا کرنے والی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ طرابلس میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت ان کے اس قدم پر شدید نکتہ چینی کرے گی۔
ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کی ملیشیا کا جو اثر ہے اس تناظر میں ان کے زیر قبضہ علاقوں میں کوئی بھی ووٹ منصفانہ اور آزاد نہیں سمجھا جا سکتا۔سن 2017 میں قیدیوں کو قتل کرنے کی وجہ سے ان پر جنگی جرائم کے الزام بھی عائد ہوتے رہے ہیں۔
حفتر کرنل معمر قذافی کے سابق اتحادی تھے، جنہیں بعد میں جلاوطن کر دیا گیا تھا اور کئی دہائیوں تک امریکا میں رہنے کے بعد انہوں نے بالآخر وہاں کی شہریت بھی حاصل کر لی تھی۔
جنگی سردار خلیفہ حفتر معمر قذافی کے دور میں ملکی فوج کے ایک سینیئر افسر تھے اور بعد میں اپنی مسلح تنظیم لیبیئن نیشنل آرمی کے کمانڈر اورخود ساختہ فیلڈ مارشل بن گئے۔ اب انہوں نے اس سے استعفی دے دیا ہے۔
اشتہار
قذافی کے بیٹے سیف الاسلام بھی امیدوار
ان انتخابات میں مقتول آمر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی بھی ایک امیدوار کے طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ صدارتی امیدوار کے طور پر انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی اتوار چودہ نومبر کو نیشنل الیکٹورل کمیشن میں جمع کرائے تھے۔ یہ کاغذات قذافی کے بیٹے نے ملک کے جنوب مغربی شہر صباح میں جمع کروائے۔ لیبیا کی الیکشن کمیشن نے بھی صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار ان کے شریک ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔
معمر قذافی کے دور میں انہیں اپنے والد کا جانشین تصور کیا جاتا تھا۔ ان کے والد ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے محروم کر دیے گئے تھے۔ والد کے زوال کے بعد سیف الاسلام کو سن 2011 میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
انہیں پانچ برس سے زائد عرصے بعد جون سن 2017 میں رہا کیا گیا۔ ان کی سیاسی وابستگی پاپولر فرنٹ برائے آزادی لیبیا نامی سیاسی و عسکری گروپ کے ساتھ ہے۔ یہ بنیادی طور پر سابق آمر کے حامیوں کی سیاسی جماعت اور ملیشیا ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔