لیبیا حکومت پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں، جرمن وزیر خارجہ
7 مارچ 2011![](https://static.dw.com/image/5353279_800.webp)
اگرچہ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے مالی پابندیاں عائد کرنے پر زور دیا ہے تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے قبل لیبیا کے ہمسایہ ممالک اور اقوام متحدہ سے مشاورت ضرور کی جائے۔
ویسٹر ویلے نےویلٹ ام زونٹاگ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا،’ جو کچھ لیبیا میں ہو رہا ہے، مجھے اس پر شدید تحفظات ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ اس مخصوص صورتحال میں لیبیا میں ایسے لوگوں کے خلاف پابندیاں عائد کی جانی چاہیے، جو وہاں تشدد کے ذمہ دار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قذافی اور ان کے ساتھیوں کے پاس سرمایہ نہیں جائےگا تو وہ عوام کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔’ یہ ضروری ہے کہ وہاں تشدد کے ذمہ داران کے پاس رقوم کا پہنچنا بند ہو جائے‘۔
گیڈو ویسٹر ویلے نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اس تمام معاملے میں لیبیا کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مشاورت ضرور کریں،’یہ واضح ہے کہ عالمی برادری لیبیا کے خلاف جو قدم بھی اٹھائے، وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظوری کے ساتھ ہو اور اس سلسلے میں علاقائی سطح پر مذاکرات بھی کیے جائیں‘۔
دریں اثناء لیبیا میں قذافی کی حامی اور مخالف طاقتوں میں شدید جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ صورتحال کا درست اندازہ لگانے کے لیے یورپی یونین نے لیبیا میں اپنا ایک نگران مشن روانہ کر دیا ہے۔ یہ مشن طرابلس میں موجودہ صورتحال کے بارے میں حقائق اکٹھے کرے گا۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے کہا ہے،’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ لیبیا میں ایک اعلیٰ سطحی مشن روانہ کروں تاکہ وہاں کی صحیح صورتحال کا اندازہ ہو سکے‘۔
دوسری طرف اطلاعات کے مطابق اتوار کو بھی کئی علاقوں میں قذافی کی فورسز اورحکومت مخالف طاقتوں کے مابین جھڑپیں جاری رہیں۔ کئی اہم علاقوں پر حکومتی کنٹرول کے بارے میں متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ قذافی کا کہنا ہے کہ ان کے فوجیوں نے راس لانوف، الزاویہ، مصراتہ اور دیگر کئی اہم شہروں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے تاہم باغیوں کا کہنا ہے کہ ان مقامات پر وہ قابض ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایک محتاظ اندازے کے مطابق لیبیا میں شورش برپا ہونے کے بعد سے کم از کم ایک ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف