لیبیا: حکومت کی جانب سے نئے آئین کی تجویز
10 اپریل 2011بحران کا شکار معمر قذافی کی حکومت نے خانہ جنگی اور ملک میں افراتفری کے درمیان اپنی ’جمہوریت پسندی‘ کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک نیا آئین تشکیل دے رہے ہیں، جو لیبیا میں جمہوریت کو فروغ دے گا۔ حکومتی اہلکار تاہم یہ وضاحت نہیں کر پائے کہ اس نئے آئین یا نئے نظامِ حکومت میں معمر قذافی کا کیا کردار ہوگا۔
معمر قذافی کے خلاف برسرِ پیکار باغیوں کا موقف ہے کہ ان کی جنگ قذافی حکومت کے خلاف عوامی نفرت اور مظاہروں کے باعث ہے اور یہ کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مخالفین اور مظاہرین پر تشدّد کر رہے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال اس شمالی افریقی ملک میں قذافی کے مخالفین معاشی اور سیاسی اصلاحات کے ساتھ جلد از جلد آزاد اور شفّاف انتخابات کے انعقاد کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ قذافی کئی عشروں سے لیبیا کے اقتدار پر بلا شراکتِ غیر قابض ہیں۔
واضح رہے کہ فی الوقت لیبیا کسی آئین کے بغیر ہی چل رہا ہے۔ حکومت انیس سو ستر میں قذافی کی تحریر کردہ ایک کتاب میں درج نظریاتی نکات سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ تاہم اتوار کے روز حکومتی اہلکاروں نے طرابلس میں غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایک واضح آئین کی تشکیل کی جانب اشارہ دیا ہے۔ نائب وزیرِ خارجہ خالد کلیم کا کہنا ہے کہ ان کو امید ہے کہ نیا آئین جلد منظور اور نافذ کردیا جائےگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ افراد سیاسی اصلاحات نہیں چاہتے ہیں اور ان کی اصل دلچسپی آئین کے بجائے دولت اور طاقت سے ہے۔
آئینی کمیٹی کے ایک رکن سے جب سوال کیا گیا کہ کیا نئے آئین کی نوعیت صدارتی ہوگی یا پارلیمانی تو ان کا جواب تھا کہ یہ ’لیبیائی‘ طرز کا آئین ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین قوموں کے گرد بنتے ہیں نہ کہ افراد کے گرد، اور لیبیا کے عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ قذافی اقتدار میں رہیں لہٰذا ان کا آئینی کردار بھی طے پا سکتا ہے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق