جرمنی میں لیبیا میں قیام امن کے حوالے سے منعقد ہوئی بین الاقوامی کانفرنس میں اتفاق کر لیا گیا کہ اس تنازعے کے فریقین کو اسلحہ فراہم نہ کرنے کی پابندی پر سخت طریقے سے عمل کیا جائے۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن میں اتوار کو منعقد ہونے والی 'لیبیا امن کانفرنس‘ میں شریک عالمی رہنماؤں نے مشترکہ طور پر کہا ہے کہ اس شمالی افریقی ممالک کے متحارب گروپوں پر اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ اسلحہ فراہم نہ کرنے کی پابندی پر سختی سے عمل کیا جائے۔
اس سمٹ میں شریک سولہ ممالک اور اداروں نے اس معاہدے کو حتمی شکل دی اور ساتھ ہی کہا کہ اسلحے کی پابندی کی نگرانی کرنے کی خاطر زیادہ ٹھوس اور مؤثر طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا، ''ہم نے ایک جامع منصوبے پر اتفاق کر لیا ہے۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ اس ڈیل کے لیے تمام شرکا نے مل کر تعمیری انداز میں کام کیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ تمام شرکا نے اتفاق کیا ہے کہ وہ لیبیا کے متحارب گروپوں کو اسلحہ فراہم نہ کرنے کی اقوام متحدہ کی پابندی کا احترام کریں گے۔
بتایا گیا ہے کہ لیبیا میں قیام امن کی خاطر مزید ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور اس عمل کو تیز بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ برلن سمٹ میں فرانسیسی، روسی اور ترک صدور بھی شریک تھے۔
لیبیا کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے وزیر اعظم فائز السراج اور ان کے حریف خلیفہ حفتر بھی اتوار کے دن برلن میں موجود تھے لیکن ان دونوں نے ایک دوسرے سے براہ راست ملاقات نہ کی۔ اس سمٹ سے قبل جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ان رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش نے زرو دیا ہے کہ عالمی طاقتیں لیبیا کے تنازعے میں مداخلت سے باز رہیں۔ سمٹ کے بعد برلن میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ لیبیا تنازعے کا حل فوجی ایکشن میں ہر گز نہیں ہے، ''مجھے امید ہے کہ اس سمٹ میں جو وعدے کیے گئے ہیں، وہ لیبیا میں پائیدار قیام امن کے لیے راہ ہموار کریں گے‘‘۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔