لیبیا سے زیادہ تر پاکستانی ہی کیوں یورپ کا رخ کر رہے ہیں؟
شمشیر حیدر
4 فروری 2018
رواں برس کے آغاز میں لیبیا کے ساحلوں سے بحیرہ روم کے خطرناک سمندری راستے عبور کر کے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جن میں پاکستانیوں کی تعداد نمایاں ہے۔
اشتہار
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے مطابق رواں برس کے آغاز کے ساتھ ہی لیبیا کے ساحلوں سے یورپ جانے کے رجحان میں اضافے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران چھ ہزار سے زیادہ پناہ گزینوں نے بحیرہ روم کے سمندری راستے عبور کر کے اٹلی کا رخ کیا ہے۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے پانے والے معاہدے کے بعد ہی سے لیبیا کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا تھا۔ گزشتہ برس یورپی یونین نے لیبیا کی یونٹی گورنمنٹ کے تعاون سے لیبیائی ساحلی محافظوں کو تربیت فراہم کرنا شروع کی تھی۔ علاوہ ازیں لیبیائی حکومت کے حامی ملیشیا کے اہلکار بھی مہاجرین کو یورپ کا رخ کرنے سے روکتے دکھائی دیے تھے، جس پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے یورپی یونین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم ایسے اقدامات کے بعد سن 2017 کے اواخر تک لیبائی ساحلوں سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں واضح کمی بھی واقع ہوئی تھی۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔
تصویر: Privat
11 تصاویر1 | 11
لیکن رواں برس شروع ہوتے ہی اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ جرمن پبلک براڈ کاسٹر اے آر ڈی نے اپنی ایک رپورٹ میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس اضافے کے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لیبیا کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی ملک پر عملداری نہیں ہے اور ایسی صورت حال میں لیبیا کے ساحلی محافظوں اور انسانوں کے اسمگلروں کے گٹھ جوڑ سے ان راستوں کے ذریعے یورپ کی جانب کشتیاں روانہ کی جا رہی ہیں۔
زیادہ تعداد پاکستانی شہریوں ہی کی کیوں؟
جمعے کے روز لیبیائی ساحلوں پر تارکین وطن سے لدی ایک کشتی ڈوبنے کے واقعے میں نوے سے زائد تارکین وطن ڈوب گئے تھے۔ رپورٹوں کے مطابق ان میں زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اے آر ڈی نے اپنی رپورٹ میں آئی او ایم کے ترجمان جول ملمان کے حوالے بتایا ہے کہ انسانوں کے اسمگلر پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک سے تارکین وطن کو پہلے ترکی اور متحدہ عرب امارات لاتے ہیں جس کے بعد انہیں لیبیا پہنچا دیا جاتا ہے۔
ملمان نے لیبیا کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والوں میں پاکستانیوں کی نمایاں تعداد کی وجوہات بیان کرتے ہوے کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے لیبیا پاکستانی شہریوں کے لیے روزگار کے حصول کی ایک اہم منزل رہا ہے اور اس ملک میں کئی پاکستانی شہری طویل عرصے سے آباد ہیں۔ انسانوں کے اسمگلر مزید تارکین وطن کو بھی ترکی اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے لیبیا منتقل کر رہے ہیں تاہم ملمان کے مطابق لیبیا میں سکیورٹی کی مایوس کن صورت حال کے باعث وہاں پہلے سے مقیم پاکستانی شہری بھی بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔
یہ طویل سمندری راستے انتہائی خطرناک بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ آئی او ایم کے مطابق رواں برس کے ابتدائی چند روز کے دوران ہی ڈھائی سو سے زائد تارکین وطن سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے جب کہ اب تک بحیرہ روم میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد پندرہ ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔