لیبیا سے لوٹنے والے بھارتی باشندوں کے تاثرات
2 مارچ 2011لیبیا کی حکومت نے بھارتی قومی فضائی کمپنی ایئر انڈیا کو دن میں تین بار دارالحکومت طرابلس میں لینڈنگ کی اجازت دے دی ہے۔ نئی دہلی نے لیبیا کے بعض دیگر شہروں سے بھی فضائی سروس شروع کرنے کی درخواست دے رکھی ہے۔
بھارت پہنچنے والوں میں سے 1188 شہریوں نے لیبیا کے مشرقی بندرگاہی شہر بن غازی سے ایک مسافر بحری جہاز کے ذریعے اپنی واپسی کا سفر شروع کیا تھا۔ لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے خلاف بغاوت کا آغاز اسی شہر سے ہوا تھا، جو اب حکومت مخالف قوتوں کے کنٹرول میں ہے۔
نئی دہلی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق آج بدھ کو ’سکوٹیا پرنس‘ نامی بحری جہاز مزید بھارتی باشندوں کو لے کر مصر کے بندرگاہی شہر اسکندریہ پہنچے گا۔ بھارتی حکام کے مطابق اس جہاز پر 175 بھارتی نرسوں سمیت متعدد ایسے شہری سوار ہیں، جو روزگار کے سلسلے میں لیبیا میں مقیم تھے۔
بھارتی سیکریٹری خارجہ نروپما راؤ نے لیبیا میں پھنسے ہوئے افراد کے اہل خانہ کو یقین دلایا ہے کہ حکومت انہیں وہاں سے نکالنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔
راؤ کے بقول لیبیا میں رہائش پذیر لگ بھگ 18 ہزار بھارتی شہریوں میں سے 20 فیصد یعنی قریب 3600 واپس لوٹ چکے ہیں۔ لیبیا میں وسیع پیمانے پر خانہ جنگی کے خدشات کے سبب وہاں مقیم غیر ملکی باشندوں کی سلامتی سے متعلق تحفظات بہت بڑھ گئے ہیں۔
بھارت کی سرکاری فضائی کمپنی ایئر انڈیا کی ایک پرواز کے ذریعے لیبیا سے وطن لوٹنے والے محمد صالح نامی ایک بھارتی شہری نے بتایا کہ وہاں سے جان بچاکر گھر لوٹنا ’جنت پا لینے کے مترادف‘ ہے۔ محمد صالح ان 1134 بھارتی شہریوں میں سے ایک ہیں جنہیں طرابلس سے ایئر انڈیا کی پروازوں کے ذریعے بھارت منتقل کیا گیا۔
لیبیا چھوڑنے والے بھارتی شہریوں کے مطابق وہاں بدامنی کے ساتھ ساتھ لوٹ مار بھی عام ہو چکی ہے اور قانون نام کی کسی چیز کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا۔ ایک نیپالی شہری چندرا بہادر کے بقول وہ مشرقی لیبیا میں ایک کوریائی تعمیراتی کمپنی کے لیے کام کرتے تھے۔ ’’ہم درجنوں مزدور جس کیمپ میں رہائش پذیر تھے، اسے نذرآتش کر دیا گیا، جس کے سبب ہم ایک قریبی مسجد میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے، جہاں مقامی افراد ہمیں کھانا دیتے رہے۔‘‘
ان کے بقول مسلح افراد نے اس کوریائی کمپنی کی 250 گاڑیاں، ملازمین کے لیپ ٹاپ کمپیوٹرز، بٹوے، موبائل فون حتیٰ کہ کپڑے تک بھی چرا لیے۔ چندرا بہادر کے بقول وہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں دیگر افراد ایک ہفتے تک مسجد میں پناہ لیے ہوئے تھے، جس کے بعد انہیں مصر منتقل کرنے کے انتظامات کیے گئے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک